امیر مقرر کر دیا گیا۔ ان مجاہدین نے رومی سرحدوں پر جاکر رومیوں کا مقابلہ کرتا تھا۔ یہ سن ۸ھ کا قصہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت کرتے ہوئے فرمایا:
((عَلَیْکُمْ بِزَیْدٍ، فَاِنْ اُصِیْبَ فَجَعْفَرٌ، فَاِنْ اُصِیْبَ جَعْفَرٌ فَاِبْنُ رَوَاحَۃَ)) [1]
’’تمہارے امیر زید ہیں اگر زید قتل ہو جائیں تو جعفر (تمہارے امیر ہوں گے) اور اگر جعفر (بھی) شہید ہو جائیں تو (پھر عبداللہ) ابن رواحہ (تمہارے امیر ہوں گے)۔‘‘
اس معرکہ میں مسلمانوں اور رومیوں کی فوجوں کی تعداد، سامانِ حرب اور آلاتِ جنگ و قتال میں واضح فرق تھا۔ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار جب رومی دو لاکھ کے قریب تھے۔ موتہ کے مقام پر دونوں فوجیں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئیں اور گھمان کا دن پڑا۔ جنگ کا جھنڈا سیّدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں تھا۔ زید بڑی بے جگری سے لڑے سینے پر نیزے سہے اور بالآخر شہید ہوگئے۔ سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر جھنڈا ہاتھ میں لیا۔ دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے۔ جب سواری پر سوار ہوتے ہوئے لڑنے میں دقت محسوس کرنے لگے تواتر کر اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں تاکہ بھاگنے کا خیال بھی دل میں نہ آئے۔ اسلام میں میدانِ قتال میں اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹنے والے پہلے مسلمان آپ ہیں ۔ لڑتے لڑتے دایاں ہاتھ کٹ گیا تو جھنڈا بائیں ہاتھ میں تھام لیا۔ جب بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو جھنڈا گود میں لے لیا۔ اور بالآخر شہید ہوگئے۔
ان کے بعد جھنڈا سیّدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لے لیا۔ گھوڑے پر آگے بڑھے۔ نفس کو ذرا تردد ہوا تو خود کو یہ کہا:
اَقْسَمْتُ یَا نَفْسُ لَتَنْزِلِنَّہ
طَائِعَۃً اَوْ لِتُکْرَہِنَّہ مَالِی
|