رب تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں :
﴿ النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ﴾ (الاحزاب: ۶)
’’پیغمبر مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔‘‘
اب تم دو گمراہیوں کے درمیان بھٹکتے پھر رہے ہو دونوں میں جس کو چاہو اختیار کرلو۔
پھر فرمایا: کیا میں تمہاری دوسری بات کا بھی جواب دے دیا۔
خوارج: … (ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے) جی بالکل!
ابن عباس: … رہ گئی تمہاری تیسری بات کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نام کے ساتھ سے امیر المومنین کا لفط کیوں مٹایا تو سنو! میں تمہیں اس کا وہ جواب دوں گا جس سے تم مطمئن ہو جاؤ گے۔ ذرا صلح حدیبیہ کا موقعہ تو یاد کرو۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو معاہدہ کی شرائط لکھ لینے کے لیے طلب فرمایا۔ا ور کفار کی طرف سے معاہدہ کی شرائط لکھنے کے لیے سہیل بن عمرو اور ابو سفیان آئے تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے علی! لکھو! یہ وہ عہد نامہ ہے جس پر محمد اللہ کے رسول نے صلح کی ہے۔‘‘
یہ سن کر مشرک بولے:
’’اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول سمجھتے تو نہ بیت اللہ سے روکتے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے۔‘‘ ہاں بجائے ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے ’’محمد بن عبداللہ‘‘ لکھیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہوں چاہے تم میری تکذیب ہی کرو‘‘ اے علی لکھو! محمد بن عبداللہ اب تم لوگ ہی بتلاؤ کہ رسول اللہ افضل ہیں یا علی۔ چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نام کے ساتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ مٹایا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے خارج نہ ہوئے تھے۔ کیا میں نے تمہاری تیسری بات کا جواب دے دیا۔
سب خوارج بیک زبان بولے: جی ہاں !
اس نہایت حکیمانہ اور بے حد اچھی گفتگو کا نتیجہ پھر یہ نکلا ایک تہائی خارجی (تقریباً دو
|