Maktaba Wahhabi

150 - 378
یہ ابو تراب، ابو الحسن، جنت کے نوجوانوں کے سرداروں کے باپ تھے جو خلیفۂ راشد، خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد، دامادِ رسول، اللہ اور اس کے رسول کے محبوب، حامل پرچم رسول، مومن مرد و عورت کے دوست اصحابِ رسول کے حبیب، قرآن و سنت کے حلیف، امیر المومنین ابو الحسن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب ہیں ۔ رضی اللّٰہ عنہ وارضاہ تبوک کے سوا سب غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست وبازو بن کر شریک ہوئے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جنابِ علی رضی اللہ عنہ تبوک کے محاذ سے پیچھے کیوں رہے؟ کیوں کہ اس بات کا حکم خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ کہ آپ کو اہل و عیال کی حفاظت اور خیر گیری کے لیے مدینہ میں چھوڑا۔ پیچھے بعض نوجوانوں نے طعنہ دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑ گئے ہیں ۔ یہ سنتے ہی آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں ۔‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ کے ساتھ تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘[1] آپ کو اسلام کے مجرم عبدالرحمن بن ملجم نے مسجد میں نماز پڑھنے کی حالت میں سر پر تلوار کا وار کرکے شدید زخمی کر دیا۔ یہ ۴۰ ھ بروز جمعہ کا واقعہ ہے۔ آپ زخموں سے جانبر نہ ہوسکے۔ اتوار کی رات وفات پاگئے۔ ابن ملجم نے آپ پر ۱۷ رمضان کو حملہ کیا تھا اور آپ نے ۱۹ رمضان کو داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ بے شک ایک عادل خلیفہ کو موت آگئی لیکن آپ کی سیرت آج بھی زندہ ہے۔ امیر المومنین اس دنیا سے پردہ فرماگئے لیکن آپ کا عدل و انصاف، زہد و ورع، اور قربانی پر اس شخص کے لیے قیامت تک معیار ہے جو بہادروں کی طرح جینا چاہتا ہے اور مجاہدوں کی طرح
Flag Counter