اِذَا اشْتَبَکَتْ دُمُوْعٌ فِیْ خُدُوْدِ
تَبَیَّنَ مَنْ بَکٰی مِمَّنْ تَبَاکِیْ
’’جب آنسو اور رخسار کی مڈ بھیڑ ہوتی ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ دل سے کون رویا اور کس نے جھوٹ موٹ رونے کی شکل بنائی۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلیوں پر لعاب مبارک لگا کر اس کو جناب علی رضی اللہ عنہ کے پیروں پر ملا اور آپ کے لیے عافیت کی دعا کی۔ پھر شہید ہونے تک سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ شکایت دوبارہ کبھی نہ ہوئی۔ [1]
یہاں پر اس اہم ترین امر کی طرف اشارہ کر دینا بھی ضروری ہے کہ ہجرت کے باب میں سب سے نازک اور خطرناک دور جنابِ علی رضی اللہ عنہ نے ادا کیا۔ آپ اسلام میں سب سے پہلے شخص تھے جس نے خود کو موت پر پیش کیا تھا۔ بلاشبہ یہ اپنے طرز کا ایک فدائی تھا جو سونتی ہوئی تلواروں کی چھاؤں میں پوپھٹنے کا انتظار کر رہا تھا۔ قیامت تک جب بھی ہجرت کا ذکر ہوگا جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فدائی کا ذکر بھی ضرور ہوگا۔ جو جرأت و شجاعت اور بطولت و بسالت کی سب حدیں پار کر گیا اور جان کو رب کے حضور قربان ہونے کے لیے پیش کردیا۔ لیکن کیوں ؟
تاکہ رسالت مآب خاتمی مرتبت سید الانبیاء والمرسلین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین آفاق عالم میں پھیلے اور کائنات پر آفتاب بن کر طلوع ہو جس کی کرنوں سے روئے زمین کا ذرہ ذرہ چمک اٹھے۔
میرے بھائیو! ابو السبطین کی زندگی عظمت وجلال کا سرچشمہ، اور قربانی کا منبع تھی۔ آپ کی عالمی ہمتی کی وسعتیں نانپنے میں نہ آتی تھیں ۔ پیشانی پر جرأتوں اور بزرگیوں کے آثار چمکتے تھے۔ اگر تاریخ میں مرقوم و مذکور واقعات سچے نہ ہوتے تو جنابِ علی رضی اللہ عنہ کے کارنامے کہ طلسماتی دنیا کے افسانے لگتے۔
|