نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں سے ایک مشت خاک لیے باہر نکلے اور اس خاک کو ان سب کے سروں پر ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے سے گزر گئے اور انہیں نظر بھی نہ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے گزر گئے۔
﴿ وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ﴾ (یٰسٓ: ۹)
’’اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور پیچھے بھی، پھر ان پر پردہ ڈال دیا تو یہ دیکھ نہیں سکتے۔‘‘
جناب علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سبز چادر اوڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سو گئے۔ اس دوران کفار اشرار حسب عادت یہ سمجھ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پر کنکریاں پھینکتے رہے کہ یہ تو رسولِ خدا ہیں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ساری تکلیف سہہ لی پر چادر سے منہ باہر نہ نکالا۔ کفار ڈراتے رہے، مگر آپ بے حد مضبوط دل کے ساتھ لیٹے رہے۔ اور ذرا خوف زدہ نہ ہوئے۔ کیونکہ آپ بے حد نڈر بہادر اور عظیم تھے، صبح کو جب آپ نے چادر سے منہ باہر نکالا تو کفار ہاتھ ملتے رہ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو نکل گئے۔ یہ تو علی ہیں ۔ یوں رب تعالیٰ نے ان کا مکر انہیں پر پھیر دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاتے ہوئے یہ حکم بھی دے گئے تھے کہ میرے بعد مدینہ ہجرت کر آنا۔ چنانچہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روانہ ہوگئے۔ دن کو چھپ جاتے اور رات کو مسافت قطع کرتے۔ حتی کہ مدینہ پہنچ گئے۔ صحابہ نے دوڑ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پہنچنے کی خبر دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، علی کو میرے پاس لے آؤ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ وہ چلنے سے قاصر ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود چل کر ان کے پاس گئے۔ گلے لگایا اور فرطِ مسرت سے رو پڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوجے ہوئے پیر دیکھے جن سے چل چل کر خون بہہ رہا تھا۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بے حد ترس آیا۔ اور یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جب زبان خاموش اور آنسو باتیں کرتے ہیں !
|