رفاقت کا سوال کرتے ہیں جن کو قوم وطن سے نکلنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اور جناب علی رضی اللہ عنہ اس بستر پر سونے کو تیار ہیں جس پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں ۔
پھر یہ خدمت گزاری اور والہیت کا جذبہ کسی ایسے شخص کے لیے نہیں جو بے پناہ دولت اور لمبی چوڑی جائیدادوں کا مالک تھا کہ جس کی محبت کا دم بھرنے سے کچھ نہ کچھ انعام ملنے کی توقع ضرور ہوتی ہے۔ بلکہ یہ ایک شخص کی نصرت اور رفاقت کے لیے تیار ہونا ہے جس سے اس کا سب کچھ چھینا جا رہا ہے حتی کہ گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن کیا جارہا ہے۔
پھر کس جذبے نے اس عظیم خدمت پر آمادہ کیا؟
وہ صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور اس کے دین کی نصرت کا جذبہ تھا۔ جو عظیم لوگوں کا امتیازی وصف ہے۔ یہ ایمان ہی تو ہے جو انسان کو اللہ کے لیے جان مال، وطن، عزت وآبرو، خویش احباب، عزیز رشتہ دار اور بیوی بچوں سب سے دست بردار ہوکر ہجرت کر جانے پر آمادہ کرتا ہے۔
اس لیے میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا جاتا کہ آپ کی زندگی کی سب سے اہم اور عظیم رات کون سی ہے؟ تو یقینا وہ یہ جواب دیتے کہ ہجرت کی رات، اور کیوں ؟ کیوں کہ وہ رات جان قربان کر دینے، حرارتِ ایمان کا امتحان لینے صدقِ یقین کو پرکھنے اور حبیب خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کی رات تھی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دو باتوں کے لیے طلب فرمایا:
۱۔ لوگوں کو امانتیں انہیں لوٹا دینا اور ان کے قرض ادا کر دینا۔
۲۔ اور دوسرے میرے بستر پر آکر سو جانا۔
پھر کفار مکہ نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا محاصرہ کرلیا، وہ لوگ دروازے کی تاک میں بیٹھے رہے پر اندر نہ گھسے کیونکہ اہل عرب کسی کے زنانہ مکان میں گھسنے کو معیوب سمجھتے تھے۔ اب وہ لوگ اس مذاکراہ پر بات کر رہے تھے کہ کون آگے بڑھ کر اپنے سب سے زیادہ بدبخت ہونے کا ثبوت دے گا۔
|