Maktaba Wahhabi

146 - 378
’’(اے پیغمبر!) جس اللہ نے تم پر قرآن (کے احکام) کو فرض کیا ہے وہ تمہیں بازگشت کی جگہ لوٹا دے گا۔ (یعنی مکہ لوٹا دے گا)۔‘‘ جب مشرکوں نے دیکھا کہ مسلمان تو اپنے بیوی بچوں سمیت مدینہ ہجرت کرتے جا رہے ہیں تو اس بات کا اندیشہ ہوا کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت کرکے مدینہ منورہ نہ چلے جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین وہاں جاکر اور مضبوط نہ ہو جائے۔ اب مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور چند مسلمان ہی باقی رہ گئے جن کو مشرکوں نے زبردستی روک رکھا تھا۔ پھر جب وہ رات آگئی جس میں مشرکوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش کر رکھی تھی سیّدنا جبرئیل علیہ السلام آسمان سے وحی لے کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سازش سے آگاہ کر دیا اور یہ حکم دیا کہ آج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر نہ سوئیے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس دوپہر کے وقت چلے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس وقت آنے کا دستور نہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ مجھ کو ہجرت کی اجازت ہوگئی ہے۔ جنابِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! کیا اس ناچیز کو بھی ہم رکاب ہونے کا شرف حاصل ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں !‘‘ سیّدہ صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ یہ سن کر میرے والد فرطِ مسرت سے رو پڑے۔ اس سے پیشتر مجھ کو یہ گمان نہ تھا کہ کوئی مارے خوشی کے بھی رونے لگتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم میرے بستر پر میری سبز چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور ڈرو مت کہ تمہیں کسی قسم کا گزند نہ پہنچے گا۔‘‘ قارئین! آلِ بیت رسول کے اس بہادر نوجوان نے بلا تردد لبیک کہا۔ سبحان اللہ! یہ کیسے جذبات تھے۔ ابوبکر ؓ فرطِ مسرت سے رونے لگتے ہیں ۔ علی جان ہتھیلی پر رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سونے کے لیے تیار ہیں ۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کیسی محبت تھی! بے شک یہ نصرتِ دین کا بے پناہ جذبہ تھا! صدیق اکبر اس رسول کے سفر میں
Flag Counter