Maktaba Wahhabi

143 - 378
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے اور اُن کے دور میں فتوحات اور اس کے نتیجہ میں اموالِ غنیمت کی کثرت ہوئی تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کو فضیلت دی۔ چنانچہ بدریوں کے لیے پانچ ہزار اور جو بدر میں شریک سابقین فی الاسلام کے لیے چار ہزار جب کہ سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کے لیے بارہ ہزار مقرر کیے۔ حتی کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کا بے حد اکرام و اعزاز فرماتے تھے۔ اور آپ کے ہاتھوں اور قدموں کا بوسہ لیا کرتے تھے۔ اور فرماتے: ’’اے میرے چچا! مجھ سے راضی رہنا۔‘‘ [1] سعید بن مسیب کا قول ہے کہ: ’’عباس اس امت کے سب سے بہتر انسان ہیں ۔‘‘ [2] سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کے گھر پر ایک پرنالہ لگا تھا جس کا پانی برسات میں گلی میں گرتا تھا، راہ گیروں کے لیے وہ پرنالہ کبھی کبھی پریشانی کا باعث بن جاتا تھا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ایک دفعہ اس کو اکھاڑ دیا۔ سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’کیا یہ پرنالہ تم نے اکھاڑا ہے؟ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جی ہاں ! اسے میں نے اکھاڑا تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔‘‘ اس پر سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ پرنالہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ رکھا تھا۔‘‘ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رو پڑے پھر کہنے لگے: ’’اللہ کی قسم! آپ میری پیٹ پر چڑھ کر یہ پرنالہ دوبارہ اپنی جگہ پر رکھیں گے۔‘‘ [3] اے میرے بھائیو اور بہنو! دیکھا آپ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ادب کیسا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار و اقوال کی کیسی تابعداری ہوتی تھی۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ کس قدر ادب والا معاملہ کیا۔ کیا ہم بھی آج اپنے آباء و اجداد اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ ادب کا ایسا سلوک کرتے ہیں ؟ بلکہ کیا اللہ، اس کے رسول
Flag Counter