Maktaba Wahhabi

142 - 378
میں شرکت کی مگر مشرکین کے ساتھ۔ اس غزوہ میں آپ گرفتار ہوئے۔ اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے امیر بناکر پیش کیے گئے تو آپ نے اپنا یہ عذر بیان کیا کہ: ’’میں اس سے قبل مسلمان ہو چکا ہوں یہ مشرکین مجھے اپنے ساتھ زبردستی لے آئے ہیں ۔‘‘ اور انہوں نے جنگ میں شریک ہونے پر مجھے مجبور کیا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ کا معاملہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے اگر تو آپ اپنے دعویٰ اسلام میں سچے ہیں تو اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا۔ رہا ہمارا معاملہ تو ہم تو ظاہر حال کے مطابق ہی عمل کریں گے لہٰذا آپ ابھی دوسرے قیدیوں کی طرح رہائی کے لیے فدیہ دیجیے‘‘[1] سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ رات سب قیدی رسیوں میں بندھے رہے۔ اس رات پہلے پہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند نہ آئی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے مشکوں میں بندھے اپنے چچا کے کراہنے کی آوازیں سنائی دیتیں ہیں ‘‘ (ان کراہوں سے بے قرار ہوکر میں سو نہ سکا۔) سبحان اللہ! جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر عظیم ہیں کہ مشکوں میں بندھے چچا کے کراہنے کی آواز نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے نیند اڑا لی۔ اور رات بھر جاگتے رہے۔ اور نیند کی راحت نہ اٹھائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس بات کا بے حد اثر ہوا۔ اور لپک کر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکرام میں سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کی مشکیں کھول دیں ۔ [2] سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جتنا سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کا اکرام و اعزاز کرتے دیکھا ہے اتنا کسی اور کا کرتے نہیں دیکھا۔[3] اسی لیے سب صحابہ کرام سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کا بے حد اکرام و احترام کرتے تھے۔ حتی کہ اگر آپ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ یا سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے اور وہ سواری پر سوار ہوتے تو آپ کے احترام میں نیچے اتر آتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ گزر جاتے۔‘‘
Flag Counter