ہو (کہ لوگ اگرچہ آپ کے دین کے مخالف تھے لیکن جس عزت اور وقعت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے وہ کسی کو نصیب نہ تھی) اور ہم ان کے حامی ومددگار ہیں ۔ وہ تمہارے یہاں آنا چاہتے ہیں اگر تم ان کی حفاظت و حمایت کرسکو اور مرتے دم تک اس پر قائم رہ سکو تو بہتر ہے ورنہ ابھی سے صاف جواب دے دو۔‘‘
یہ کس قدر مختصر اور چھوٹے کلمات ہیں لیکن ان میں انصار کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ وہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اپنانے نہیں لے جا رہے ہیں بلکہ عرب و عجم سے جنگ کرنے اور مصائب و شدائد کے پہاڑ اٹھانے چلے تھے۔ اس لیے خوب سوچ سمجھ لیں ۔ اس پر کعب نے کھڑے ہوکر کہا: ’’ہم نے آپ کی بات سن لی۔ (پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف التفاف کرتے ہوئے عرض کیا) اے اللہ کے رسول! آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں ہم اس کے لیے حاضر ہیں ۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے اور اللہ کے لیے ہم سے جو چاہیں عہد لے لیں ۔‘‘
انصار کے اس جواب نے بتلا دیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں لے جانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان مال، اولاد عزت اور آبرو وغیرہ سب کچھ قربان کرنے کے لیے کس قدر سچے، مخلص اور مومن ہیں ۔ وہ پہاڑوں جیسے جگرے اور لوہے جیسے دل اور طوفانی ہواؤں اور بپھری لہروں جیسے زبردست ارادے اور جرأت و شجاعت کے ساتھ اس اہم ترین ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لیے تیار ہیں ۔ اس راہ میں جو بھی ہو، جو نتیجہ بھی نکلے، جو انجام بھی سامنے آئے سب کو بھگتنے اور برداشت کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں ۔
انصار کے اس مومنانہ، اور جرأت مندانہ بیان کو سن کر سیّدنا عباس مطمئن ہوگئے کہ اب میرے عزیز ترین بھتیجے پر آنچ بھی نہیں آنے والی۔ پھر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور بیعت کی تکمیل کی۔ [1]
آپ نے اپنے اسلام لے آنے کا اعلان فتح مکہ کے بعد کیا تھا۔ آپ نے غزوہ بدر
|