Maktaba Wahhabi

140 - 378
کی آباد کاری کا ذمہ آپ نے اٹھایا ہوا تھا۔ اور آباد کاری سے مراد یہ تھی کہ آپ مسجد حرام میں کسی کو زبان درازی اور سب و شتم کرنے اور بے ہودہ گوئی کرنے نہ دیتے تھے۔ [1] ہجرت سے قبل موسم حج میں دوسری بیعت عقبہ کے موقع پر آپ نے عظیم کردار کا مظاہرہ فرمایا۔ چنانچہ جب دو سرداروں کی زیر قیادت انصار کے تہتر افراد کا وفد مکہ پہنچا تاکہ اللہ اور اس کے رسول کی بیعت اطاعت کریں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ ہجرت کر جانے پر بھی آمادہ کریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وفد کی عرض داشت کو سب سے پہلے جناب عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے ذکر کیا۔ یہ امر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے محترم چچا سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کی ذات پر کس قدر بھروسہ تھا حالانکہ اس وقت وہ اپنی قوم کے مذہب پر تھے۔ انصار گھاٹی میں چھپ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچاس عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف لائے۔ جناب عباس رضی اللہ عنہ سارے معاملے اور گفتگو کا خود جائزہ لینا چاہتے تھے اور آپ اس بات کا اطمینان حاصل کرنا چاہتے تھے کہ یہ لوگ میرے بھتیجے کے ساتھ درست معاملہ کرنے جارہے ہیں یا نہیں ۔ پھر گفتگو کا آغاز بھی آپ نے خود کیا اور ان کے سامنے اس مسئلہ کی نزاکت اور اہمیت کو پوری طرح کھول کر رکھ دیا اور انہیں اس بات کا بھر پور احساس دلایا کہ وہ کس قدر اہم ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھانے چلے ہیں ۔ اس لیے اگر ہمت ہے تو آگے بڑھو اور رسولِ خدا کو ساتھ لے جاؤ اور اگر اس اہم ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا بارا نہیں تو یہیں سے لوٹ جاؤ۔ آپ نے ان پر واضح کر دیا کہ اس تحالف کے کیا نتائج سامنے آئیں گے۔ اس لیے خوب سوچ سمجھ کر قدم آگے بڑھاؤ۔ اس موقعہ پر سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب جو زبردست، مدبرانہ اور عاقبت اندیشانہ تقریر کی وہ یہ تھی: ’’اے گروہِ خزرج! یہ محمد ہیں ! ان کا جو مقام ومرتبہ ہم میں ہے وہ تم لوگ جانتے
Flag Counter