Maktaba Wahhabi

134 - 378
پھوپھی سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو خاص طور پر آواز دے کر نام لے کر پکارا۔ بلاشبہ یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں میں آپ کی بے پناہ عزت اور وقعت اور آپ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے از حد قرب کی بنا پر تھا۔ پھر سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے بھی دعوت حق قبول کرنے میں ذرا تردد اور انکار نہ کیا اور صدائے حق کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور نورِ ہدایت کی طرف قلب و روح کے ساتھ متوجہ ہوئیں ۔ پس سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہوگئیں ۔ سیرت نگاروں نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھیوں میں سے سوائے سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے اور کوئی مشرف باسلام نہ ہوئیں ۔[1] یوں سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے خاندانی عزت و شرافت کے ساتھ ساتھ اسلام کی بزرگی کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے دوسری خواتین کے ساتھ اسلام کی بیعت کی۔ جس کے اثرات آپ کی مبارک زندگی میں واضح طور پر نظر آتے تھے۔ پھر چشم فلک نے دیکھ لیا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والی آلِ بیت رسول کی اس عظیم خاتون نے اپنے خاوند کے ساتھ نیکی کرنے میں اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے میں اور قول و عمل میں اخلاص برتنے میں کیسی عظمت اور نیکی کا ثبوت دیا۔ سبحان اللہ! جب بھی ہم سیّدہ صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کو یاد کرتے ہیں تو قلب و دماغ میں عزم و ہمت، جرأت و شجاعت، قوتِ نفس اور شخصیت و کردار کے خیالات کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے۔ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی سیرت و تربیت کا شاہکار آپ کا نور نظر اور لخت جگر سیّدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہیں ۔ جن کی بہادری، شدت، حوصلہ، عزم و ثبات کی نظیر لانا مشکل ہے، سیّدہ صفیہ نے جنابِ زبیر کو تیر اندازی سکھلائی گھڑ سواری کی تربیت دی، فنونِ حربیہ اور سپاہ گری میں طاق کیا، انہیں خطرات میں کودنے، مشکلات میں ڈٹنے اور دشمنوں کے مقابلے پیش قدمی کرنے کا عادی بنایا۔ دوران تربیت اگر جنابِ زبیر ذرا تردد کرتے یا ہچکچاتے تو ان کی سخت تادیب کرتیں ۔ حتی کہ جنابِ زبیر رضی اللہ عنہ کے ایک چچا بول پڑے اور سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا
Flag Counter