رب تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت و رسالت خالدہ اور دین حق دینے کے بعد اس بات کا حکم دیا کہ اس دین کی دعوت سب سے پہلے اپنے قریبی عزیز رشتہ داروں کو دیجیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾ (الشعراء: ۲۱۴)
’’اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو۔‘‘
یہ وحی نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر اپنے رشتہ داروں میں بآواز بلند ان الفاظ کے ساتھ خطبہ دیا۔
((یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ اشْتَرُوا أَنْفُسَکُمْ لَا أُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا یَا بَنِی عَبْدِمَنَافٍ لَا أُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا یَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِی عَنْکَ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا وَیَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُولِ اللَّہِ لَا أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا وَیَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِینِی مَا شِئْتِ مِنْ مَالِی لَا أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا)) [1]
’’اے قریش کی جماعت! اپنی جانوں کو (ایمان لاکر جہنم سے آزادی دلانے کے لیے جنت کے بدلے) خرید لو میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ بھی کام آنے والا نہیں ، اے بنی عبد مناف! میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ بھی کام آنے والا نہیں ۔ اے عبدالمطلب کے بیٹے عباس! میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ بھی کام آنے والا نہیں ۔ اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے مقابلے میں تیرے کچھ بھی کام آنے والا نہیں ۔ اے محمد کی بیٹی فاطمہ! میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لے (پر روزِ آخرت) اللہ کے حضور میں تیرے کچھ بھی کام آنے والا نہیں ۔‘‘
ذرا دیکھئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خطبہ دیتے ہوئے پکار کر دعوت دی تو کیسے اپنی
|