Maktaba Wahhabi

130 - 378
اُصِیْبَ الْمُسْلِمُوْنَ بِہٖ جَمِیْعًا ہُنَاکَ وَقَدْ اُصِیْبَہٗ بِہِ الرَّسُوْلُ ’’میری آنکھ اللہ کے شیر کی شہادت پر رو رہی ہے اور اسے رونے دیجیے کہ رونا اس کا حق ہے اور اسے زیبا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ یہ رونا دھونا اور گریہ وبکا اس صبح کو کسی کام نہ آیا۔ جب لوگوں نے کہا کہ حمزہ شہید ہوگئے سیّدنا حمزہ کی شہادت کا صدمہ سب مسلمانوں کو پہنچا اور جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالخصوص صدمہ پہنچا۔‘‘ اس کے بعد جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر لوگوں میں بلکہ پوری دنیا میں اس بات کا اعلان کیا۔ ’’حمزہ بن عبدالمطلب سید الشہداء ہیں۔‘‘ [1] اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا! آپ کو مبارک ہو، بے حد مبارک ہو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ سے کتنی زیادہ محبت تھی اس کا اندازہ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے واقعہ سے ہو سکتا ہے۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد وفد طائف کے ساتھ وحشی رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں مشرف با سلام ہونے کی غرض سے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ انہیں دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم ہی وحشی ہو؟ عرض کیا: ’’جی ہاں !‘‘ فرمایا: ’’کیا تم نے ہی حمزہ کو قتل کیا تھا۔‘‘ وحشی نے عرض کیا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک جو بات پہنچی ہے، ویسی ہی ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی سے سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ دریافت کیا، وحشی نے نہایت فجالت و ندامت کے ساتھ محض تعمیل ارشاد کی غرض سے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ واقعہ سننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غم پھر تازہ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی کے اسلام کو یہ کہہ کر قبول فرمایا: ((دُعُوْہُ فَلَاِسْلَامُ رَجُلٍ وَاحِدٍ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ قَتْلِ اَلْفِ کَافِرٍ)) ’’انہیں چھوڑ دو کہ ایک شخص کا مسلمان ہونا میرے نزدیک ہزار کافروں کو قتل کر دینے سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔‘‘
Flag Counter