’’(اے پیغمبر!) اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں ) یا اللہ ان کے حال پہ رحم کرے یا انہیں عذاب دے کہ یہ ظالم لوگ ہی۔‘‘
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غم سے ٹوٹے دل کے ساتھ مدینہ منورہ لوٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی خواتین کو احد کے شہیدوں پر روتے دیکھا۔ میرے ماں باپ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان! فرطِ غم سے نگاہیں پر نم اور پلکیں آنسوؤں سے بوجھل ہوگئیں اور فرمایا: ’’لیکن حمزہ پر رونے والیاں نہیں ، لیکن حمزہ پر رونے والیاں نہیں !‘‘ [1] یہ سنتے ہی انصار کی عورتوں میں کہرام مچ گیا اور بول اٹھیں : ’’اے اللہ کے رسول! حمزہ پر ہم روئیں گیں ۔‘‘ لیکن
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رونے اور نوحہ کرنے سے منع کر دیا۔
قارئین کرام! بہادروں کی زندگی کا اختتام ایسے ہی پر شکوہ حالات کے ساتھ ہوتا ہے کہ:
فَاِمَّا حَیَاۃٌ تَسُرُّ الصِّدِّیْقَ
وَ اِمَّا مَمَاتٌ یَغِیْظُ الْعِدَائَ
’’یا تو وہ ایسی زندگی جیتے ہیں جو دوستوں کے لیے فرحت وسرور کا باعث ہوتی ہے یا پھر وہ ایسی عزت کی موت مرتے ہیں جو دشمنوں کو اور بھی طیش دلاتی ہے۔‘‘
غزوہ احد میں ستر کے قریب صحابہ کرام مسند شہادت پر رونق افروز ہوئے، مدینہ کی فضا بے حد سوگوار تھی۔ عربوں کی فطری حساسیت کو گہری ٹھیس پہنچی اور شعراء نے بڑے پر درد مرثیے کہے۔ سیّدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
بَکَتْ عَیْنِیْ وَ حَقٌّ لَّہَا بَکَاہَا
وَ مَا یُغْنِی الْبَکَائُ وَلَا الْعَوِیْلُ
عَلٰی اَسَدِ الْاِلٰہِ غَدَاۃَ قَالُوْا
أَحَمْزَۃُ ذَاکُمُ الرَّجُلُ الْقَتِیْلُ
|