Maktaba Wahhabi

128 - 378
تلاش کر رہا تھا۔ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کس طرح کفار اشرار پر برقِ یزداں بن کر گرج اور برس رہے تھے اس کو خود وحشی کی زبانی سنتے ہیں : ’’وحشی کہتے ہیں کہ احد کے دن میں نے ایک صاحب دیکھے، وہ جدھر بھی حملہ آور ہوتے سب کو پچھاڑ کر ہی ہٹتے، ان کے سامنے کھڑے ہونے کی کسی میں مجال نہ تھی۔ میں نے ان کی حیرت انگیز بہادری دیکھ کر آس پاس والوں سے پوچھا: ’’یہ کون ہیں ! لوگوں نے بتلایا کہ یہ ’’حمزہ‘‘ ہیں ۔ تو میں بے اختیار کہہ اٹھا: ’’میں انہیں کی تلاش میں تو آیا تھا۔‘‘ وحشی اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے۔ وہ اسلام لانے کے بعد اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : میرے آقا جبیر نے مجھ سے کہا کہ اگر تم میرے چچا کے قاتل حمزہ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو، میں چھوٹا نیزہ تاک کر مارنے میں بے حد ماہر تھا۔ میں جنگ احد میں ایک چٹان کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا اور موقع تلاش کرنے لگا۔ آپ نے سباع بن عبدالعزی جیسے بہادر کا ایک ہی وار میں کام تمام کر دیا۔ (جس سے میرے اوسان خطا ہوگئے) غرض آخر کار مجھے موقعہ مل گیا اور میں نے چھپ کر نیزہ پھینکا جو آپ کی ناف کے نیچے لگا اور آر پار ہوگیا۔ آپ شہید ہو کر گر گئے۔ لیکن شہید ہونے سے قبل تیس سے زیادہ کافروں کو تلوار کے گھاٹ اتار چکے تھے۔ آپ کی شہادت کے بعد کافروں نے محض اتنی بات پر اکتفا نہ کیا بلکہ آپ کی نعش کا مثلہ بنایا آپ کا پیٹ اور سینہ چاک کیا کان اور ناک کاٹ ڈالے۔ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے ہم عمر، دوست، رفیق، دست وبازو اور محبوب ترین چچا کی شہادت اور مثلہ بنائے جانے کی خبر بجلی بن کر گری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھا لی کہ حمزہ کے بدلے اگر اللہ نے قدرت دی تو قریش کے ستر شکست خوردہ کا مثلہ بناکر انتقام لوں گا۔ اس پر رب تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ ﴾ (آل عمران: ۱۲۸)
Flag Counter