Maktaba Wahhabi

127 - 378
حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تھے۔ غزوہ بدر میں جو اسلام کا سب سے پہلا اور ممتاز ترین غزوہ ہے آپ نے جرأت وشجاعت کی نئی داستان رقم کی۔ اور بہادری و جانبازی کے وہ جوہر دکھلائے جن کی مثل اور نظیر لانا ممکن نہیں ۔ تِلْکَ الْمَکَارِمُ لَا قَعْبَانَ مِنْ لَبَنِ ہٰذَا وَ ہٰکَذَا الصَّیْفُ لَا شَیْفَ ابْنِ ذِیْ وَ ہٰکَذَا یَفْعَلُ الْأَبْطَالُ إِنْ غَضِبُوْا وَ ہٰکَذَا یَعْصِفُ التَّوْحِیْدَ بِالْوَثْنِ غزوۂ احد میں آپ نے جس بہادری کے ساتھ کفار اشرار کی صفوں کو درہم برہم کیا اس کی داستان بیان کرتے ہوئے سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’احد کے دن سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دونوں ہاتھوں میں تلواریں لیے ہوئے ہمت و استقامت کا کوہِ گراں بن کر کھڑے تھے اور یہ فرماتے جا رہے تھے: ’’میں اللہ کا شیر ہوں ۔‘‘ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ مجاہد فی سبیل اللہ بن کر لا الہ الا اللہ کی سربلندی کے لیے کبھی میمنہ تو کبھی میسرہ کے محاذ پر لڑتے آپ کفار کے سروں کو ان کے تنوں سے جدا کر رہے تھے، ان کی صفیں الٹ رہے تھے، اور اکیلے ہی انہیں دھکیل دھکیل کر پرے کر رہے تھے۔ رب کا یہ شیر دھاڑنے اور ڈرانے میں لگا تھا کہ اسی دوران ایک شخص ایک چٹان کی اوٹ میں آپ کی گھات میں چھپا بیٹھا تھا۔ وہ نہایت معمولی انعام کے لالچ میں آپ کو قتل کرنے کا عزم لے کر میدانِ احد میں کفارِ مکہ کے ساتھ آیا ہوا تھا۔ یہ جبیر بن مطعم کا غلام وحشی بن حرب تھا۔ اس نے وحشی کو آزادی کا لالچ دے کر یہ مشن سونپا تھا کیونکہ جنگ بدر میں جبیر کا چچا طعیمہ بن عدی جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا تھا۔ اس وقت سے جبیر کے دل میں نفرت و انتقام کی آگ جل رہی تھی۔ وحشی یہ ارادہ لے کر میدان میں تو چلے آئے لیکن آمنے سامنے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تلواریں ٹکرا کر لڑنے کی ہمت نہ تھی۔ جناب حمزہ رضی اللہ عنہ کی جرأت، طیش، غضب اور تلوار کی تیزی دیکھ کر کسی کو بھی سامنے کھڑے ہونا کایارا نہ تھا۔ اس لیے وحشی چھپ کر موقعہ
Flag Counter