گرج دار آواز میں یہ کہا: ’’کیا تو میرے بھتیجے سے بد زبانی کرتا ہے حالانکہ میں اس کے دین پر ہوں ؟ اس پر ابو جہل کے قبیلہ کے بھائی بند بنو مخزوم اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھ کر بنو ہاشم جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔ معاملہ سنگین اور صورتِ حال گھمبیر ہوگئی۔ ابو جہل کو معاملہ سنبھالنے میں ہی عافیت نظر آئی اور فورًا رفع دفع کرتے ہوئے کہنے لگا: ابو عمارہ کو کچھ نہ کہو (غلطی میری ہے) کیونکہ میں نے واقعی ان کے بھتیجے کو بے حد برا بھلا کہا ہے۔‘‘
اگرچہ اس وقت سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ غیرت کی بنا پر اسلام کا اظہار کر بیٹھے تھے لیکن بعد میں مرتے دم تک اسلام کو خوب نبھایا۔ رب تعالیٰ نے آپ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا۔ آپ نے اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھاما اور مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ [1]
اسلام لانے کے بعد سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی خاطر وہ وہ قربانیاں دیں جن کو سونے کے پانی سے اور نور کے الفاظ کے ساتھ لکھا جانا چاہیے، تاریخ نے اپنے سینے میں ان عبرت آموز واقعات کو قیامت تک کی نسلوں کے لیے محفوظ کرلیا ہوا ہے تاکہ وہ اپنے اسلاف کی زندگیوں کو نمونہ بناکر کامیابیوں اور ترقیوں کی انہیں منزلوں تک پہنچ سکیں جہاں تک ان کے اسلاف پہنچے ہیں ۔ ہم اگر رکن اور مقام کے درمیان کھڑے ہوکر بھی اس بات کی قسم اٹھائیں تو جھوٹے نہ ہوں گے کہ: ’’انسانیت نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے عظیم، عادل، بہادر طاقتور، قربانی دینے والے اور صدق وایمان والے لوگ نہیں دیکھے۔‘‘ رضی اللّٰہ عنہم ارضاہم اجمعین
سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لے آنے کے ایمانی ثمرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلاف میں دشمنوں کے مقابلہ میں نکلنے والے سب سے پہلے سریہ کی قیادت جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہی ہاتھوں میں تھی۔ اور جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے لیے سب سے پہلا پرچم جس بطل جلیل کے لیے باندھا وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شیر سیّدنا
|