ذریعے اسلام کو سر بلند کیا۔ آپ کے اسلام لاتے ہی کمزوروں اور بے بسوں کی تنگی اور شدت کا دور ختم ہوگیا۔ اور مسلمان مکہ کی گلی کوچے میں اس ناز کے ساتھ پھرنے لگے کہ ہاں اب اس وادی میں کوئی ہمارا بھی حمایتی اور طرف دار ہے جس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی کسی کو ہمت نہیں ۔ اور اب لوگ اسلام میں بے خوف و خطر داخل ہونے لگے اور رب تعالیٰ کے اس شیر نے اپنی بطولت وبسالت کے ثمرات اپنی آنکھوں سے دیکھنے شروع کر دیے سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام نے دعوت کے رستے کو کھول دیا۔
مناسب ہے کہ اس موقعہ پر سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لے آنے کے ایمان افروز واقعہ کو بھی ذکر کر دیا جائے۔ ایک مرتبہ اس امت کا فرعون صفا کے مقام پر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اور حسب عادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستا گیا اور منہ پر بے حد برا بھلا کہہ گیا اور نجانے جہنم کے کتنے عذاب اپنے دامن میں سمیٹ لے گیا۔ اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس بدبخت نے پتھر مار کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بھی زخمی کر دیا۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل کی یہ ساری بد تمیزی بے حد صبر سے برداشت کی اور خاموش رہے اور اسے کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی گستاخی اور شوخی سے بے حد رنجیدگی ہوئی۔ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شکار کے شوقین تھے۔ اس دن شکار کھیلنے گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر آپ کی باندی نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اور ایک روایت یہ ہے کہ عبداللہ بن جدعان کی باندی نے یہ سارا منظر صفا پہاڑی کے اوپر سے دیکھا تھا جہاں وہ رہتی تھی۔ شکار سے واپسی پر جب جناب حمزہ رضی اللہ عنہ ہاتھ میں کمان تھامے آرہے تھے تو اس باندی نے آپ کو یہ سارا ماجرا کہہ سنایا۔ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بے پناہ محبت تھی۔ یہ سنتے ہی طیش میں آگئے۔ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ قریش کے بہت بہادر فرزند اور بڑے خود دار تھے ابو جہل کے پاس پہنچے۔ ابو جہل مسجد حرام میں محفل لگائے بیٹھا اپنی کمینگی کا قصہ سنا رہا تھا اور حاضرین سے داد وصول کر رہا تھا۔ آپ کسی کے پاس بھی نہ رکے اور سیدھے ابو جہل کے سر پر جا پہنچے۔ اور ہاتھ میں پکڑی کمان زور سے اس کے سر میں دے ماری اور
|