پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فَھَلْ تَسْتَطِیْعُ اَنْ تُغَیَبَ وَجْھَکَ عَنِّیْ))
’’کیا تم سے یہ ہوسکتا ہے کہ تم (جب میرے سامنے آؤ تو) اپنا چہرہ مجھ سے چھپا لیا کرو۔ (کہ تمہیں دیکھ کر چچا کا صدمہ تازہ ہو جاتا ہے)۔‘‘
سبحان اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی کو معاف کر دیا، ان کا اسلام قبول فرمالیا البتہ اپنے چچا حمزہ کے قاتل کے چہرے کی طرف نہ دیکھ سکے۔ [1]
وحشی کو چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچانا مقصود نہ تھا اس لیے جب خدمت نبوی میں حاضر ہوتے تھے تو پیٹھ پیچھے بیٹھا کرتے تھے۔
ذرا تصور کیجیے کہ اگر کوئی آپ کے قریبی ترین، محبوب ترین اور عزیز ترین شخص کو قتل کر ڈالے پھر وہ آپ کی دعوت قبول کرتے ہوئے آپ کے پاس آ پہنچے تو کیا آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ آپ ان آنسوؤں کو بھلا دو جو آپ نے اس قریبی پر بہائے ہوں ؟ اور کیا آپ ان آہوں کو بھول سکتے ہو جو آپ کے دل سے نکلی ہوں ؟ پھر اس سب کے باوجود آپ اس کو معاف بھی کردو۔
یہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے اپنے عزیز ترین چچا کے قاتل کو معاف بھی کر دیا اور اس کے اسلام کو بھی قبول فرمایا لیکن بشری تقاضے کے تحت فرمایا تو فقط اتنا کہ ’’اگر تم سے ہو سکے تو مجھے نظر نہ آیا کرو۔‘‘ اسی لیے وحشی جب بھی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ کی پیٹھ پیچھے بیٹھا کرتے تھے۔
شہدائے احد کی کرامات و اعزازات کا کیا کہنا: قرآنِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تفصیلی احوال ذکر کیے، فضائل ومناقب بیان کیا، احادیث میں کثرت کے ساتھ ان کے بارے میں بشارتیں مذکور ہوئیں !
رب تعالیٰ ان سب سے راضی ہو اور انہیں راضی کرے۔
|