Maktaba Wahhabi

122 - 378
ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی مدینہ منورہ بلوا لیا۔ دونوں بیٹیوں نے از حد شوق کے ساتھ راہِ خدا میں ہجرت کی اور مکہ جیسا وطن چھوڑ کر دارالہجرت مدینہ منورہ چلی آئیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر زبردست استقبال کیا اور اپنے گھر میں اتارا۔ یہ وہ حجرے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کے ساتھ اپنے اہل کے لیے بنوائے تھے۔ غزوہ بدر کے موقعہ پر سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا انتقال فرما گئیں ۔ پھر کچھ عرصہ بعد ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاوّل ۳ھ میں سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ جس کے بعد سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ ’’ذوالنورین‘‘ کہلانے لگے۔ یہ وہ عزت تھی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں کا نکاح سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا۔ سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اپنے نیک ترین خاوند کے ساتھ سعادت بھری زندگی گزارنے لگیں اور اپنی آنکھوں سے اسلام کی ترقی کا نظارہ کرنے لگیں ۔ اور آپ اپنے خاوند کی اسلام کے لیے بے مثال اور بے پناہ خدمات بھی دیکھ رہی تھیں ۔ سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے چھ سال جنابِ عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ گزارے۔ اس دوران آپ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ [1] پھر سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا بیمار پڑ گئیں اور بیماری نے صاحب فراش کر دیا۔ کچھ عرصہ بیمار رہ کر شعبان ۹ھ میں آپ کا انتقال ہو گیا۔[2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے انتقال کا بے پناہ دکھ ہوا۔ ام عطیہ کو غسل دینے کا اور طاق تعداد میں غسل دینے کا حکم دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفن کے لیے اپنی تہبند مرحمت فرمائی۔ تدفین کے بعد جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغمود اور پرنم نگاہوں کے ساتھ اپنی اس عزیز ترین اور بے نفسی و قیمتی بیٹی کی قبر پر کھڑے رہے۔ بخاری کی روایت میں سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ: ’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (یعنی ام کلثوم رضی اللہ عنہا ) کے جنازہ میں شریک ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر کے پاس تشریف فرما ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ نگاہوں سے آنسو جاری ہیں۔‘‘
Flag Counter