Maktaba Wahhabi

121 - 378
سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے وفات پاجانے کے بعد سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا۔ نکاح سے قبل سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اپنی بہن سیّدہ فاطمۃ الزہرا کے ساتھ مکہ میں ماں اور باپ کے ساتھ رہنے لگیں کیونکہ سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا تو حبشہ ہجرت کر گئیں تھیں ۔ سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے مشرکین مکہ کی ان ایذاؤں کو برداشت کیا جن کا سامنا پہلے ایمان لے آنے والوں نے کیا تھا۔ سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ان سب تکالیف، ایذاؤں اور ظلموں کے سامنے صبر وتحمل کا کوہِ گراں بن کر کھڑی رہیں اور مصائب و آللام کی تلخیوں کو ہنسی خوشی پی گئیں ۔ سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے شعب ابی طالب کے سخت ترین مقاطعہ کو بھی برداشت کیا جو کفارِ مکہ نے بنو ہاشم اور بنی مطلب کے ساتھ کیا تھا۔ اس مقاطعہ میں اہل ایمان نے تکلیف و ایذاء کی بے پناہ شدتوں کو برداشت کیا، مسلسل فاقے کاٹے، بھوک پیاس کی شدتیں جھیلیں ۔ سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا دوسرے اہل ایمان کی طرح مجسم صبر اور سراپا شکر بن کر یہ وقت کاٹتی رہیں سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا دیکھ رہی تھیں کہ مصائب و شدائد کی شدتوں نے والدہ ماجدہ کی کمر توڑ کے رکھ دی ہیں اور بالآخر سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا انتقال فرما گئیں ۔ یہ عظیم مجاہدہ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا انتقال فرما گئیں اور ان دو عظیم مجاہدہ سیّدہ ام کلثوم اور سیّدہ فاطمۃ الزہراء نے اس عظیم حادثہ کو بے پناہ صبر و ثبات کے ساتھ برداشت کیا، اور فراق کے اس الم کو قلب و جگر پر ثواب کی امید پر جھیلا اور اپنے بے حد مغموم، افسردہ باپ سید البشر جناب محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری غم گساری کی۔ شعب ابی طالب کی سختیوں ، والدہ ماجدہ کی وفات اور پھر ابو طالب کی انتقال کے بعد کفار اشرار کی جرأتوں میں اور اضافہ ہوگیا اور اب وہ بے مہار ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے۔ مسلمانوں کی شدت اور تکلیف کو دیکھتے ہوئے انہیں مدینہ منورہ ہجرت کر جانے کی اجازت مل گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دونوں بیٹیوں ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو اپنی دوسری بیوی سیّدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے پاس مکہ چھوڑ کر پہلے خود مدینہ ہجرت کرگئے۔[1] پھر زید بن حارثہ کو بھیج کر دونوں بیٹیوں اور آلِ
Flag Counter