’’اے اللہ! اس پر اپنے کتوں (یعنی درندوں ) میں سے کوئی کتا (درندہ) مسلط فرما۔‘‘
گزشتہ میں حواشی میں یہ بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ ابو لہب کی اولاد میں سے صرف عتیبہ ہی وہ بدبخت تھا جو شرک میں مرا تھا۔ اس نے فقط سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو طلاق دینے پر ہی اکتفاء نہ کیا تھا بلکہ طلاق دینے کے بعد جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہ کہا کہ: ’’میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا منکر ہوں ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو طلاق دے دی ہے اور وہ مجھ کو پسند نہیں کرتی اور میں اس کو پسند نہیں کرتا۔ یہ کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دیا اور پیراہن چاک کر دیا۔ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مذکورہ بالا بد دعا فرمائی۔‘‘
ابو لہب کو جب اس بد دعا کا علم ہوا تو گھبرا گیا اور اسے بیٹے کی جان کی فکر ہوئی۔ چند دنوں بعد دونوں باپ بیٹے ملک شام تجارت کی غرض سے گئے۔ قافلے نے مقام زرقاء پر پڑاؤ ڈالا۔ لوگوں نے بتلایا کہ یہاں رات کو شیر آتے جاتے ہیں ۔ ابو لہب کو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا یاد آگئی۔ اس لیے اس نے عتیبہ کی حفاظت کی خوب تدبیر کی۔ وہ یوں کہ سارے قافلے کے سامان کو ایک ڈھیر کی شکل میں اکٹھا کرکے اس کی چوٹی پر اپنے بیٹے عتیبہ کو سلایا۔ لیکن یہ سب تدبیریں خالی گئیں اور جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا خالی نہ گئی۔ چنانچہ شیر رات کو آیا اور وہ سب قافلہ والوں کے چہرے دیکھتا اور سونگھتا جاتا تھا۔ جب عتیبہ تک پہنچا تو فورًا اس کا سر چبا لیا۔ عتیبہ نے وہیں جان دے دی اور شیر جنگل میں اور عتیبہ جہنم میں گم ہوگیا۔ [1]
اگرچہ اس قصہ کی سند میں اور ثبوت میں کلام ہے لیکن اس قدر بات ضرور ثابت ہے کہ ابو لہب کی اولاد میں سے صرف عتیبہ ہی کفر اور شرک پر مرا تھا۔ جیسا کہ گزشتہ میں بیان ہوا۔
عتیبہ کے منحوس تذکرے کے بعد ہم دوبارہ سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے معطر تذکرے کی طرف لوٹتے ہیں ۔ اس ظالمانہ طلاق کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح
|