ہاں کوئی دوسری اولاد بھی پیدا نہ ہوئی تھی۔
اگرچہ سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا نے قبولِ اسلام سے لے کر بچے کے انتقال تک سب مصائب کو سہا اور ان پر صبر کیا لیکن بالآخر انہی غموں نے آپ کو نڈھا کر دیا۔ اور بدنِ مبارک پر ضعف و مرض کے سائے پڑنے لگے۔ اور سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو خسرہ لاحق ہوگیا۔[1] اور آپ صاحب فراش ہوگئیں ۔ آپ کے کریم و شفیق شوہر آپ کی عیادت اور تیمار داری میں مصروف ہوگئے۔
اسی دوران جنگ بدر کا قصہ پیش آگیا۔ روانگی کے وقت سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی طبیعت بے حد خراب تھی اس لیے آپ کی تیمار داری اور دیکھ بھال کے لیے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو جنگ میں شرکت سے روک دیا اور وہ مدینہ میں ہی ٹھہر گئے۔
افسوس کہ سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اس مرض سے جانبر نہ ہوسکیں اور اپنے خالق حقیقی سے جاملیں ۔ والدہ ماجدہ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بیٹیوں میں سے سب سے پہلے سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا نے ہی وفات پائی۔ اور یہ کیسی عجیب جدائی تھی کہ والدہ ماجدہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے وقت سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا حبشہ میں تھیں اور آخری لمحات میں ماں اور بیٹی دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر نگاہیں ٹھنڈی نہ کرسکیں اور سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا صبر کرکے دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔ جب کہ سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے وقت آپ کے شفیق ترین باپ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس نہ تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جنگ بدر میں اپنے صحابہ کے ساتھ رب کا کلمہ بلند کرنے میں مشغول تھے۔ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے دفن میں بھی شریک نہ ہوسکے۔ سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو آنسوؤں کی چھاؤں میں قبرستان بقیع میں دفن کر دیا گیا۔ اور ابھی آپ کی قبر پر مٹی ڈالی جا رہی تھی کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار مدینہ منورہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کو بدر میں فتح کی عظیم خوشخبری دی۔[2] جنابِ
|