حبشہ پہنچ کر دونوں سکون واطمینان سے رہنے لگے، وہیں رب تعالیٰ نے سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو اولادِ نرینہ سے بھی نوازا جس کا نام ’’عبداللہ‘‘ رکھا۔ اسی کے نام پر سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ ابوعبداللہ کہلاتے تھے۔ عبداللہ چھ سال تک زندہ رہ کر انتقال کر گیا۔ جن کے انتقال کی قدرے تفصیل ذیل میں آگے درج کی جاتی ہے۔
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو رب تعالیٰ نے بے پناہ حسن و جمال سے نوازا تھا۔ مکہ میں ایسا حسین وجمیل کوئی دوسرا جوڑا نہ تھا۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خاندان کی بعض عورتوں نے اس جوڑے کی شان میں ایک قصیدہ بھی کہا تھا۔ جس کے بعض اشعار زرقانی نے نقل کیے ہیں ۔
کچھ عرصہ بعد حبشہ میں یہ جھوٹی خبریں پہنچیں کہ اب مکہ میں مشرکوں کے ظلم و ستم کا زور ٹوٹ چکا ہے اور بے شمار لوگ اسلام میں داخل ہوگئے ہیں ۔ یہ خبر سن کر متعدد مہاجرین کے دل مکہ لوٹنے کے لیے بے قرار ہوگئے۔ دوسروں کے ساتھ سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بھی اپنے خاوند کے ساتھ واپسی کے لیے تیار ہو گئیں ۔ مکہ پہنچتے ہی سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو سب سے پہلے یہ خبر ملی کہ آپ کی اور پوری امت مسلمہ کی ماں سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا رحلت فرما چکی ہیں ۔ لیکن آپ نے صبر کیا۔ کمال صبر کیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ہی مسلمانوں کی جماعتوں کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت فرما گئیں ۔
مدینہ منورہ میں سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا انصار کے قریب جابسیں ۔ مگر یہاں پہنچ کر ایک اور آزمائش آپ کی راہ دیکھ رہی تھی۔ وہ یہ کہ یہاں آکر آپ کے اس بیٹے کا چھ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا جو حبشہ میں پیدا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک مرغے نے ٹھونگ مار کر ان کا چہرہ زخمی کر دیا تھا جس سے وہ سوج گیا۔ پھر وہ بیمار پڑ گئے۔ اور بالآخر اسی بیماری نے ان کی جان لے لی۔[1] اے عبداللہ! اے نواسۂ رسول! اللہ تجھ سے راضی ہو۔ عبداللہ کے انتقال پر ہر ایک کی نگاہ پر نم تھی۔ ان کے فراق پر سب کے دل مغموم تھے مگر سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا نے لخت جگر کی وفات پر کامل صبر کیا اور رب سے اجر کی امید رکھی۔ غالباً عبداللہ کے بعد سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے
|