Maktaba Wahhabi

115 - 378
میں رخصتی سے قبل ہی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں صاحبزادیوں کو طلاق دے دی۔[1] یہ کیسی سنگ دلانہ اور ظالمانہ طلاق تھی، جو کسی وجہ کے بغیر دے دی گئی۔ بے شک یہ بے حد گراں صدمہ تھا لیکن سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا نے دین حق اور پیغمبر والد کی نصرت وحمایت کی راہ میں اس جانکاہ صدمے کو بھی کمال صبر سے برادشت کیا۔ طلاق کے بعد سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا والد ماجد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہی رہیں اور دعوت کی راہ میں پیش آنے والے مصائب و شدائد میں والد ماجد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیتی رہیں ۔ اور اپنی والدہ ماجدہ رضی اللہ عنہا اور دوسری بہنوں کے ساتھ مشرکین مکہ سے ملنے والی تکلیفوں اور اذیتوں میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غم بٹاتی رہیں ۔ رب تعالیٰ نے اس صبر واستقامت پر آپ کو عتبہ سے کہیں بڑھ کر بہتر، نیک، متقی، صالح، کریم، خوبرو وجیہہ اور مبشر بالجنہ (جس کو جنت کی بشارت دی گئی) خاوند دے دیا۔ جی ہاں ! یہ خلیفہ راشد، امیر المومنین سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کے بعد اپنی لاڈلی بیٹی سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا۔ جب مشرکین مکہ کی ایذا رسانیوں کا سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی۔ کیونکہ وہاں کا بادشاہ نجاشی بے حد عادل تھا جو کسی کے ساتھ ظلم نہ کرتا تھا۔ اجازت ملنے پر ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور آپ کی اہلیہ سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے ہجرت کی۔[2] حبشہ ہجرت کر جانے کے بعد کچھ دنوں تک دونوں کی کوئی خبر نہ ملی۔ ایک دن ایک عورت نے آکر بتلایا کہ میں نے ان دونوں کو حبشہ میں دیکھا ہے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ ان دونوں کے ساتھ ہو کہ عثمان جناب لوط علیہ السلام کے بعد پہلا شخص ہے جس نے (راہِ خدا میں ) اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی ہے۔‘‘
Flag Counter