کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کے واپس آنے کی بے حد خوشی ہوئی۔ اور یہ خوشی ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے ایمان لے آنے سے اور بھی زیادہ ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح دوبارہ ابو العاص سے کر دیا۔ اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے نکاح کو ہی برقرار رکھا۔[1]
اور اب سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا اپنے خاوند کے ساتھ نئے سرے ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگیں ۔ اور آپ دونوں کو اسلام نے دوبارہ اکٹھا کیا تھا۔
وقت گزرتا جا رہا تھا۔ آپ کے دونوں لخت جگر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدنا امامہ رضی اللہ عنہ آپ کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ کچھ عرصہ بعد سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا بیمار پڑ گئیں اور مرض بڑھتا چلا گیا اس مرض نے سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو صاحب فراش کر دیا۔ مرض طویل ہوگیا اور بالآخر اس مرض نے سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی جان لے لی۔ یہ حادثۂ جانکاہ ۸ھ کے آغاز میں پیش آگیا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سب سے بڑی بیٹی کے وفات پا جانے کا بے حد غم ہوا اور جناب ابوالعاص رضی اللہ عنہ بھی اپنی انتہائی نیک اور فرمانبردار و عبادت گزار بیوی کے وفات پاجانے پر کچھ کم اداس نہ تھے۔ پھر سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کے بعد ابوالعاص کا جی بھی اس دنیا میں زیادہ دیر تک نہ لگ سکا اور سیدہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے چار سال بعد ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے بھی داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو! سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی مبارک زندگی عبرت و نصیحت سے معمور تھے۔ آپ نے رب تعالیٰ کی رضا کو شوہر کی رضا پر مقدم رکھا اوراللہ کے دین اور اللہ کے پیغمبر کی محبت پر اپنے خاوند کی محبت کو قربان کر دیا۔ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا نے اگرچہ خاوند کے کفر و شرک کے باوجود اس کا ساتھ دیا لیکن آپ کا یہی ساتھ دینا خاوند کے اسلام لے آنے کا سبب بن گیا۔
آج ہم میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جن میں کوئی جرأت ایمانی نہیں ۔ اور وہ اتنے
|