تھیں ۔ رستے میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسلمانوں کے ایک دستے سے سامنا ہو گیا۔ اس دستے نے قافلہ کا سارا مال ومتاع چھین لیا۔ اہل قافلہ نے بھاگ کر جان بچائی، جن میں خود ابوالعاص بھی تھے۔ ابو العاص کو جان سے زیادہ قریش مکہ کی امانتوں کی فکر تھی۔ انہیں سوائے اس کے اور کوئی رستہ نظر نہ آیا کہ چھپ کر مدینہ جا پہنچے اور سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی پناہ لے لیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ابوالعاص کے آنے کی خبر ملی تو تشریف لائے اور اپنی بیٹی کو ارشاد فرمایا: ’’بیٹی اپنے مہمان کی خوب خاطر داری کرنا۔‘‘ [1]
سبحان اللہ! کیا یہ کسی عام آدمی کے اخلاق ہو سکتے ہیں ؟ بے شک یہ پیغمبروں کے اخلاق ہیں ، یہ عظیم ترین لوگوں کے اخلاق ہیں ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ: ’’تم سے خلوت نہ کرنے پائیں کیونکہ جب تک یہ مشرک تھے تم اس کے لیے حلال نہیں ہو۔‘‘
اس کے بعد جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کرکے ان سے لوٹے ہوئے مال کو واپس کرنے کی بابت مشورہ کیا اور فرمایا:
’’اس شخص کا ہمارے ساتھ جو تعلق ہے، تم لوگوں نے ان صاحب کا مال لوٹا ہے۔ اگر مناسب سمجھو تو وہ مال اسے لوٹا دو، کہ یہ بات مجھے پسند ہے اور اگر تم لوگ نہیں مانتے تو بے شک یہ مالِ غنیمت ہے جو اللہ نے تم کو دیا ہے اور تم لوگ اس مال کے زیادہ مستحق ہو۔‘‘
یہ ارشاد سنتے ہی سب صحابہ رضی اللہ عنہم نے بالاتفاق ابو العاص کا سارا مال واپس کر دیا۔ ابوالعاص وہ مال لے کر مکہ پہنچے، ہر ایک کی امانت اس تک پہنچائی اور بعد میں کلمہ پڑھ کر اپنے اسلام لے آنے کا اعلان کر دیا اور کہا: ’’میں اب تک فقط اس لیے مسلمان نہ ہوا تھا کہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ میں نے تم لوگوں کا مال کھانے کی خاطر ایسا کیا ہے۔ پس جب اللہ نے تمہارے اموال تم تک پہنچا دیے اور میں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا تو مسلمان ہوگیا۔‘‘
پھر ابوالعاص اپنا سامان سمیٹ کر مدینہ ہجرت کر آئے۔ سیدھے مسجد نبوی پہنچے۔ نبی
|