Maktaba Wahhabi

109 - 378
زمین بوس ہوئے، اور ستر کے قریب مشاہیرو ابطال گرفتار ہوئے۔ ان ناموروں میں ابوالعاص بھی شامل تھے۔ شکست کی خبر مکہ کی وادی پر بجلی بن کر گری گھر گھر میں کہرام مچ گیا، سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ مرنے والوں کو روئیں یا اسیروں پر ماتم کریں ۔ جلد ہی فیصلہ کرلیا گیا کہ پہلے قیدیوں کو چھڑانے کا بندوبست کیا جائے۔ اور فدیہ کی رقموں کا انتظام کرکے ایک وفد مدینہ منورہ روانہ کیا گیا۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو بھی اپنے گرفتار خاوند کی فکر دامن گیر تھی۔ آپ نے بھی فدیہ میں مال بھیجا جس میں وہ ہار بھی تھا جس کے ساتھ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حد نازک اور حساس یادیں وابستہ تھیں ۔ کیونکہ یہ ہار سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا جو انہوں نے بیاہ کے موقعہ پر اپنی لخت جگر سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو پہنایا تھا۔ فدیہ کی رقوم میں وہ ہار دیکھتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیا اور آپ کا دل بھر آیا اور آب دیدہ ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ’’اگر تم لوگ مناسب سمجھو تو اس ہار کو واپس کر دو اور اس قیدی کو چھوڑ دو۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حکم نبوت کے آگے سر تسلیم خم کر دیے اور ابو العاص کو چھوڑ دیا گیا۔ اور وہ ہار بھی واپس کر دیا البتہ ابوالعاص سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ مکہ لوٹ کر سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ بھیج دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور مکہ پہنچ کر سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو اپنے بھائی کنانہ کے ہمراہ مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔[1] اب سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ میں جب کہ ابو العاص مکہ میں رہنے لگے۔ اس تمام عرصہ کے دوران نہ تو ابوالعاص نے شادی کی اور نہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ زینب کا نکاح ہی کسی اور سے کیا۔ فتح مکہ سے قبل ابو العاص شام سے تجارتی قافلہ کے ساتھ لوٹ رہے تھے۔ آپ کی از حد امانت و دیانت کی بنا پر قریش مکہ کی متعدد امانتیں بھی آپ کے پاس
Flag Counter