Maktaba Wahhabi

108 - 378
تذکرہ کیا۔ تو کیا اس موقعہ پر سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا خاوند سے ڈر گئیں ؟ نہیں بلکہ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا نے پہاڑوں جیسا حوصلہ پیدا کیا اور میدانِ جنگ میں قتال کرنے والے بہادروں جیسی جرأت و دلیری کا مظاہرہ کیا۔ اور اپنے خاوند کو یہ ایمان افروز اور یقین سے بھر پور خبر دی کہ یہ مشرک بالکل ٹھیک کہتے ہیں ۔ رب تعالیٰ نے ایک نئے دین کو نازل کر دیا ہے اور میں اس دین پر جو جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ایمان لے آئی ہوں ۔ پھر سیّدہ زینب نے جرأت کے اس باب کو یہیں پر ہی بند نہیں کردیا۔ بلکہ پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنے خاوند کو بھی ایمان کی دعوت دی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت ابو العاص نے ایمان قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بت پرستی پر، کفارِ مکہ کے قدیمی دین پر جمے رہے۔ اور قومی عصبیت سے لبریز یہ جواب دیا کہ: ’’مجھے یہ گوارا نہیں کہ لوگ یہ کہیں کہ تیرے خاوند نے اپنی قوم کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور اپنی بیوی کی خوشی کی خاطر اپنے باپ دادوں کا انکاری بن بیٹھا۔‘‘ وقت گزرتا گیا، مکہ کی فضاؤں میں ہجرت کے چرچے ہونے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے مکہ کے گلی کوچے اہل ایمان سے خالی ہو گئے۔ اب کئی گھر، گلیاں ، محلے اور علاقے ویران پڑے تھے، صرف وہی لوگ رہ گئے تھے جو کمزور، بے بس، بوڑھے، بچے یا عورتیں تھیں ۔ جن میں سے ایک سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ اہل ایمان کی ہجرت کفارِ مکہ کے دلوں پرکاری ضرب اور گہرا زخم لگا گئی جس کی تلخی اور ٹیس کا احساس کم ہونے میں نہ آرہا تھا۔ اس تلخی نے نفرت اور نفرت نے انتقام کا اور انتقام نے جنگ کا روپ دھار لیا۔ اور جنگ بدر کا عظیم واقعہ منصۂ شہود پر ظاہر ہوا۔ اس جنگ میں ابو العاص کفار کی صف میں کھڑے تھے جب کہ ابو العاص اپنی اہلیہ کو دو بچوں سمیت مکہ چھوڑ آئے تھے۔ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا نے چلتے وقت روکنے کی بڑی کوشش کی پر ابوالعاص نہ مانے۔ تقدیر کا لکھا غالب آیا، جنگ قدر کا پلڑا مسلمانوں کے حق میں جھکا ہوا۔ اسلام کو فتح نصیب ہوئی، بڑے بڑے سردار مارے گئے، نخوت و غرور کے کئی بت
Flag Counter