اور ہائے وائے نہیں جس کا تمہیں وہم ہو رہا ہے) آگے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آنسو بہائے۔‘‘
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ جائز رونا اور گریہ کرنا، کیا ہے؟ اور اس کی صورت کیا ہے؟ کہ زبان پر ناشکری کا کوئی کلمہ اور شکوہ نہ ہو۔ البتہ دل پر ضبط نہ ہونے کے باعث نگاہیں اشکبار ہو جائیں تو اس میں مضائقہ نہیں ۔ یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ بلکہ ہر حساس دل ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ مصیبت اور غم میں دکھ کا اظہار تو کرتا ہے، پر اپنے رب کو ناراض نہیں کرتا۔ آگے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا یَرْضَی رَبُّنَا وَإِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا إِبْرَاہِیمُ لَمَحْزُونُونَ)) [1]
’’بے شک نگاہ اشک بار ہے اور دل مغموم ہے مگر ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پر ہمارا پروردگار راضی ہے اور اے ابراہیم! ہم تیری جدائی پر غم زدہ ہیں ۔‘‘
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لطیف فعل سے معلوم ہوا کہ اپنے قریبی اور محبوب کی جدائی پر رونا پسندیدہ ہے اور مستحب و جائز ہے۔ یہ گریہ رب کی قضاء اور تقدیر پر ناراضی کا اظہار نہیں ۔ البتہ یہ شرط ہے کہ یہ رونا میت پر رحمت کی بنا پر ہونا کہ اس لیے کہ اس کے مرجانے سے ہم ان فوائد ومنافع سے محروم ہوگئے جو اس کی زندگی میں بہم مہیا تھے۔
اس مقام پر ایک اہم امر کی طرف انتباہ بھی ضروری ہے، وہ یہ کہ جب سیّدنا فضیل بن عیاض کے بیٹے علی کا انتقال ہوا تو وہ ہنس پڑے اور بولے، ’’میں نے دیکھا کہ رب کی تقدیر نافذ ہوگئی ہے اس لیے مجھے یہ اچھا لگا کہ میں رب کے فیصلے پر راضی رہوں ۔‘‘ [2]
اب ہمارے سامنے دو باتیں ہیں ۔ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے لخت جگر کی وفات پر اشکبار ہیں جب کہ رب کا یہ نیک بندہ اپنے رب کی تقدیر پر راضی ہوتے ہوئے اپنے بیٹے
|