Maktaba Wahhabi

100 - 378
کا عرصہ نہ گزارا اور ۱۰ھ میں سب کی آنکھوں میں آنسو چھوڑ کر اس جہان سے رخصت ہوگئے۔ ننھے ابراہیم رضی اللہ عنہ نے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں جان دی تھی اس لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابراہیم رضی اللہ عنہ کے وفات پاجانے کا بے حد غم تھا۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ننھے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے رضاعی باپ) ابو سیف حدار کے ہاں گئے۔ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو لے کر چوما اور انہیں سونگھا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کرنا اپنی اولاد کے ساتھ بے پناہ محبت کی وجہ سے تھا، کیا آج کے والدین کو بھی اپنی اولادوں سے ایسی محبت ہے؟ بے شک بچے کو چومنا اس میں فرحت وسرور کی لہر دوڑا دیتا ہے اور اس سے بچے کے جذبات کو زبردست انگیخت ہوتی ہے۔ بلکہ چومنے سے بچے کا غصہ جاتا رہتا ہے اور اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ اس کے والدین کو اس کے ساتھ بے حد پیار، انس، محبت اور تعلق ہے۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ آگے بیان فرماتے ہیں : ’’اس کے چند دن بعدہم دوبارہ ابو سیف کے پاس گئے۔ اس وقت ننھے ابراہیم رضی اللہ عنہ جان کنی کے عالم میں تھے۔ (ننھے ابراہیم کی یہ حالت دیکھ کر) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔‘‘ یہ منظر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بے حد عجیب تھا کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے اپنے بیٹے کی وفات پر رو رہے ہیں ۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : پس عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہہ اٹھے: یا رسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (یوں رو رہے ہیں )؟ سیّدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ یہ سمجھے کہ جیسے دوسرے لوگ بھی مصیبت آنے پر صبر نہیں کرتے اور جزع فزع کرنے لگتے ہیں بظاہر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوسرے لوگوں کی طرح بے صبری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا اور بتلایا کہ ہائے وائے اور واویلا کرنا اور چیز ہے اور فرطِ غم سے رونا اور چیز ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابن عوف! یہ (رونا بے صبری نہیں بلکہ یہ تو اپنی اولاد کی جدائی پر غم کا اظہار اور اس پر) رحمت ہے۔‘‘ (لہٰذا یہ وہ جزع فزع
Flag Counter