صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کوواضح لفظوں میں بتادیا کہ امت میرے بتائے طریقے کو ہی ہر معاملے میں اختیار کرے اوراسی کو مضبوطی سے تھامے رہے،دائیں بائیں جھانکنا ہلاکت کو دعوت دینا ہے،آپ نے فرمایا: ’’ترکتکم علی البیضاء لیلھا کنھارھا لایزیغ عنھا إلا ھالک ‘‘[1] میں نے تمہیں صاف اورروشن راہ پر چھوڑ اہے اس کے رات ودن یکساں ہیں(میں نے تمہیں کسی قسم کے اندھیرے میں نہیں چھوڑا ہے)اس راہ سے وہی روگردانی کرے گا جو ہلاک ہونے والا ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ شریعت نے تحصیل مرتبہ احسان اوراصلاح نفس کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں کیا ہے تویہ بہتان تراشی کے علاوہ اورکچھ نہیں۔یہ تواہل بدعت کا شیوہ رہا ہے کہ نوایجاد چیزوں کو دین میں داخل کرتے اوراسے کارخیر تصور کرتے ہیں۔علمائے امت نے صاف کہہ دیا ہے کہ بدعتی اپنے عمل سے اسلاف پر طعن کرتا ہے کہ انہوں نے گویا پورادین بیان نہیں کیا اورنبی پر بھی طعن کرتا ہے کہ آپ نے فلاں چیز بیان نہ کی اورخود اللہ تعالیٰ پر کہ اس نے شریعت کی تکمیل نہ کی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:’’من ابتدع فی الإسلام بدعۃ یراھا حسنۃ فقد زعم أن محمدا صلی اللّٰه علیہ وسلم خان الرسالۃ،لأن اللّٰه تعالیٰ یقول:﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾فما لم یکن یومئذ دینا فلا یکون الیوم دینا ‘‘[2] جس نے اسلام میں کوئی بدعت نکالی جس کو وہ اچھا سمجھتا ہے توگویا اس نے یہ باور کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ادائیگی رسالت کے سلسلے میں خیانت کی کیوں کہ اللہ تعالیٰ تویہ فرماتا ہے کہ ’’آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا ہے ‘‘ پس جو چیز اس وقت دین میں نہ تھی آج بھی |