Maktaba Wahhabi

51 - 259
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس جانب متوجہ کیا تھا، کہنے لگے: ’’آپ ہمیں نکالے دیتے ہیں حالانکہ ابوالقاسم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رہنے دیا تھا۔‘‘[1] نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں وہ پھر فریادی ہوئے اور واپس آنے کی اجازت چاہی۔ کہنے لگے: ’’ہمارے پاس جو تحریر موجود ہے وہ خود آپ ہی کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے‘‘ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان کی درخواست منظور نہ کی،کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد واقع ہوا اور خود آپ کے عمل کو بدل ڈالنے والا تھا لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق تھا اس لیے شرعاً بدعت قرار نہیں پایا۔ اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا زکاۃ نہ ادا کرنے والوں سے جنگ کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بہت سے اور واقعات بھی مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں مگر ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اصول وہ کام جو عہد نبوی میں نہ تھے ان کو ایجادکرنے کے متعلق یہ ا صول اور ضابطہ بیان کیا جاسکتا ہے، کہ لوگ کوئی نئی بات اسی خیال سے ایجاد کرتے ہیں کہ وہ ان کو مفید محسوس ہوتی ہے اور ان کو اس میں کوئی مصلحت نظر آتی ہے کیونکہ اگر اسے نقصان دہ اور خلاف مصلحت سمجھیں تو اسے اختیار ہی کیوں کریں؟ اس قاعدے کی بنا پر دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا سبب ہے جو مسلمانوں کو کسی بات کے مفید سمجھنے پر آمادہ کرتا ہے؟ اگر یہ سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیش آیا اور آپ نے اس کی بابت کوئی ممانعت نہیں فرمائی تو اس کا اختیار کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر کسی بات کی ضرورت
Flag Counter