Maktaba Wahhabi

94 - 259
بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ پہلی قسم اس جگہ کی ہے جسے شریعت نے کوئی فضیلت نہیں دی اور نہ اس میں کوئی ایسی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اس میں کوئی فضیلت مانی جائے بلکہ باقی تمام جگہوں کی طرح ایک معمولی جگہ ہے یا ان سے بھی کم تر ہے۔ ایسی جگہ تعظیم کے خیال سے جانا یا نماز، دعا اور ذکر کے لیے اس جگہ جمع ہونا کھلی گمراہی ہے۔ پھر اگر اس جگہ یہود ونصاری وغیرہ کفار کے آثار موجودہیں تو اس جگہ کا قصد کرنا اور بھی زیادہ بُرا ہے کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے، اس کا ذریعہ ہے، یا اس کی ایک قسم ہے۔ بتوں کے پجاری بھی ایسا ہی کرتے تھے، کسی خاص جگہ بت کی موجودگی یا کسی تعظیم کے خیال سے جاتے اور سمجھتے تھے کہ ایسا کرنے سے قُربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ عرب کے بڑے بت عرب میں سب سے بڑے بت تین تھے۔ لات، عزّٰی اور منات۔ ان میں سے ہر بت کسی ایک بڑے شہر کے لیے مخصوص تھا۔ اس وقت حجاز میں بڑے شہر تین تھے۔ مکہ، مدینہ اور طائف۔ لات،طائف والوں کا بت تھا۔[1]اس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ دراصل ایک پرہیز گار آدمی تھا اور حاجیوں کے لیے ستوبنایا کرتا تھا۔[2]جب مرا تو لوگوں نے اس کی قبر کی تعظیم وتکریم شروع کی، پھر اس کا بت بنالیا اور اس پر ایک عمارت کھڑی کردی جس کا نام ’’بیت الرَّبۃ‘‘ تھا۔ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد 9ہجری میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ
Flag Counter