Maktaba Wahhabi

116 - 259
زیارت قبور کی جو علت ومصلحت بتائی گئی ہے، یعنی موت وآخرت کی یاددہانی وہ مسلمانوں کی طرح کافر کی قبر سے بھی ہوتی ہے، لہٰذا اس کی زیارت بھی جائز ہے۔ البتہ مسلمان میت کے لیے مغفرت کی دعا بھی کی جائے گی، جیسا کہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کیونکہ یہ صرف مسلمان کا حق ہے جبکہ کافر کے لیے دعائے مغفرت تو نہیں ہوگی، البتہ اس کی قبر سے عبرت ونصیحت حاصل کی جائے گی۔ زیارتِ قبور کے لیے سفر علماء میں اختلاف ہے کہ زیارتِ قبور کے لیے سفر جائز ہے یانھیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ جائز نہیں، بلکہ معصیت ہے اور اس میں نماز کو قصر کرنا بھی جائز نہیں، اس لیے کہ اس طرح کا سفر بدعت ہے اور اسے عہد سلف میں کسی نے بھی اختیار نہیں کیا اور اس لیے بھی کہ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ صرف تین مقامات کے لیے شَدِّ رحال، یعنی سفر کیا جاسکتا ہے: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری یہ مسجد۔‘‘[1] یہ حکم عام ہے اور اس میں ہر وہ سفر داخل ہے جو کسی مسجد، مزار یا جگہ کے لیے اختیار کیا جائے بشرطیکہ اس سے مقصود تقرب الٰہی ہو۔ اس عموم کی دلیل یہ ہے کہ بصرہ بن ابی بصرہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جبل طور سے، جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا، واپس آتے دیکھا تو پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ انھوں نے کہا: طور میں نماز پڑھ کر آرہا ہوں۔ بصرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر وہاں جانے سے پہلے میں تمھیں دیکھ لیتا تو تم نہ جاتے کیونکہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’ صرف تین مسجدوں کے لیے شدِّ رحال(یعنی سفر) کیا جا سکتا ہے یعنی مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی۔‘‘[2] راوی حدیث نے
Flag Counter