Maktaba Wahhabi

73 - 259
یہاں مسئلہ امامت پر بحث مقصود نہیں، صرف یہ بیان کرنا ہے کہ اس دن کو عید قرار دینا بدعت ہے، کیونکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں۔ اسے سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم نے عید سمجھا نہ اہلِ بیت میں سے کسی نے خیال کیا کہ اس کی تعظیم وتخصیص کرنی چاہیے۔ عیدیں وہی ہیں جو مشروع کردی گئی ہیں، لہٰذا اس بارے میں اتباع چاہیے نہ کہ ابتداع۔ اور اگر محض غدیر خم میں خطبے کی وجہ سے اس دن کو کوئی خصوصیت حاصل ہوسکتی ہے تو دوسرے ایام میں بھی نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے دیے ہیں۔ وصیتیں کی ہیں اور اہم واقعات پیش آئے مثلاً وہ دن جس میں بدر، حنین، خندق، فتح مکہ، ہجرت اور مدینہ میں داخلہ جیسے عظیم الشان واقعات پیش آئے لیکن محض ان واقعات کی وجہ سے ان دنوں کو عید قرار نہیں دیا گیا۔ اس طرح کے کام تو نصاریٰ کرتے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تاریخی ایام کو عید بنالیتے ہیں، یا یہ یہود کا طریقہ ہے۔ اسلام میں تو عید، شریعت کے حکم پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس دن کو مقرر کردیا ہے، بس وہی عید ہے۔ اسی کو منانا چاہیے اور نئی نئی عیدیں ایجاد کرکے دین میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ میلاد اسی طرح نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن کی تعظیم کا معاملہ ہے۔ مسلمان یہ چیز یا تو عیسائیوں کی تقلید میں کرتے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ ولادت میں عید مناتے ہیں یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وتعظیم کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بدعت پر نہیں بلکہ اس محنت اور اجتہاد پر انھیں ثواب دے گا[1] لیکن اس دن کو عید نہیں بنانا چاہیے کیونکہ
Flag Counter