Maktaba Wahhabi

138 - 259
ہے۔جب اس طرح کا اختلاف امت میں پیدا ہوجائے تو کتاب وسنت اور اجماع سلف صالحین کی طرف رجوع کرنااور ان کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔ امام شافعی رحمہ اللہ پر تہمت الحمدللہ کہ کسی مشہور امام یا پیشوا سے کوئی ایک قول بھی اس بدعت کی تائید میں روایت نہیں کیا گیا اور اگر کچھ روایت کیا گیاہے تو وہ سراسر جھوٹ اور تہمت ہے۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے کہا: ’’جب کبھی مجھ پر کوئی سختی آتی ہے تو ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قبر پر آکر دعا کرتا ہوں اور سختی دور ہوجاتی ہے۔‘‘ یہ قول امام شافعی رحمہ اللہ پر سراسر بہتان ہے اور ہر صاحب علم پر اس کا دروغ اور جھوٹ ہونا ظاہر ہے کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ جب بغداد میں وارد ہوئے تھے تو وہاں کوئی ایسی قبر موجود نہیں تھی جس پر دعا کے لیے لوگ آیا کرتے ہوں بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے زمانے میں سرے سے یہ فعل موجود ہی نہیں تھا۔ پھر امام شافعی رحمہ اللہ نے حجاز، یمن، شام، عراق اور مصر وغیرہ میں انبیاء علیہم السلام صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی بکثرت قبریں دیکھیں جن میں سے ہر ایک خود ان کے نزدیک اور تمام مسلمانوں کے نزدیک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ہم عصر علماء سے کہیں افضل تھا مگر امام شافعی رحمہ اللہ نے کبھی کسی کی قبر کی طرف رجوع نہیں کیا۔ اور رجوع کیا بھی تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی قبر کی طرف، اور باقی کو کیوں چھوڑا؟ پھر خودامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب مثلاً ابویوسف، محمد، زفر، حسن بن زیاد وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم نے، جوامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو دیکھ چکے تھے اور ان کے مرتبے سے واقف تھے،کبھی ان کی قبر یا کسی اور کی قبر کی طرف رجوع نہیں کیا۔ پھر خود امام شافعی رحمہ اللہ نے جیسا کہ مذکور ہوچکا ہے، اپنی کتاب میں قبروں کی تعظیم مکروہ قرار دی ہے تاکہ جہلاء فتنے میں نہ پڑ جائیں۔ دراصل اس قسم کی روایتیں وہ لوگ تراشتے ہیں
Flag Counter