Maktaba Wahhabi

216 - 259
آیا[1] اور جو اسلام سے پہلے بھی عبادت گاہ تھی، یا غار ثور جس کا ذکر قرآن میں وارد ہے[2] اور جہاں آپ پر اللہ کی سکینت نازل ہوئی، جب ان مقامات کا یہ حال ہے تو دوسرے انبیاء علیہم السلام کے مقامات کا کیا حکم ہوگا۔ ظاہر ہے عبادت ودعا کے لیے ان کا قصد اور بھی زیادہ خلاف شریعت ہوگا اور یہ اس صورت میں جب کہ ان مقامات کی صحت ثابت ہوجائے۔ لیکن یہ بات اور بھی زیادہ مکروہ ہوجاتی ہے جب معلوم ہوجائے کہ وہ محض فرضی ہیں یا ان کی صحت ثابت نہیں کی جاسکتی۔ کسی مقام کو بوسہ دینا اسی قبیل سے کسی مقام کو تبرک کے خیال سے مسح کرنا یا بوسہ دینا بھی ہے۔ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے حجر اسود کے سوا خانہ کعبہ کے کسی مقام کو بوسہ نہیں دیا۔ حتیٰ کہ مقام ابراہیم کا بھی، تو ظاہر ہے آپ کے قدم کی جگہ یا کسی اور آدمی کے قدم کی جگہ کو بوسہ دینا، مسح کرنا کیونکر جائز ہے۔ بہت سے جاہلوں نے پتھروں پر قدم کے نشان بنا رکھے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں اور لوگوں سے ان کی تعظیم کراتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشانات ہیں۔ حالانکہ اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے اور ان کی صحت ثابت بھی ہوجائے تو بھی ان کا بوسہ ومسح جائز نہ ہوگا، لیکن جب کہ ان کا فرضی ہونا ثابت ہے تو اس طرح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ مقام ابراہیم اور دوسرے مقامات اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مقام ابراہیم کو مصلیٰ قرار دینے کا حکم دیا ہے، اسی پر دوسرے
Flag Counter