Maktaba Wahhabi

53 - 259
دیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے اس کی مصلحت تسلیم نہیں کی۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے فعل کو جائز قرار دینا دین الٰہی میں تبدیلی کرنا ہے۔ اس قسم کی جرأت گمراہ بادشاہوں اور بے باک عالموں اورعابدوں ہی سے سرزد ہوئی ہے جن کو اپنے اجتہاد میں ٹھوکر لگی ہے اور وہ لغزش کا شکار ہوگئے ہیں۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے کہ ’’میں تم سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں ان میں سے ایک عالم کی ٹھوکر اور لغزش ہے، اور دوسرے نمبر پر منافق کا قرآن کو لے کر جھگڑا اور مجادلہ کرنا ہے، اور تیسری خطرے والی چیز گمراہ پیشوا ہیں۔‘‘[1] مُسکِت استدلال اس سلسلے کی ایک مثال عیدین میں اذان کا معاملہ ہے۔ بعض حکام نے اسے ایجاد کیا تو اس عہد کے مسلمانوں نے ان پر اعتراض بھی کیا اور ان کے اعتراض کی بنیاد یہی تھی کہ وہ بدعت ہے، ورنہ کہا جاسکتا تھا کہ اذان ذکرِ الٰہی ہے اور اس کے ساتھ مخلوق کوعبادتِ الٰہی کی طرف دعوت دی جاتی ہے، لہٰذا عیدین کی اذان ﴿اُذْکُرُوْا اللّٰہَ ذِکْراً کَثِیْراً﴾ ’’اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔‘‘[2]اور﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعا إِلَی اللّٰہِ﴾ ’’اس سے اچھی بات کہنے
Flag Counter