Maktaba Wahhabi

202 - 259
نیز اس میں قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی مماثلت موجود ہے، جو انھیں عید بنالینے کا ذریعہ ہے اور اہل کتاب سے بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا فعل رہ گیا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فعل تو ان کی موافقت کسی صحابی نے نہیں کی۔ چنانچہ خلفائے راشدین اور دوسرے مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی منقول نہیں کہ وہ خصوصیت کے ساتھ ان جگہوں کا قصد کرتے ہوں، جہاں نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم اترتے تھے۔ اس لیے جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک ہی صحیح ہے۔ کیونکہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا مطلب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ آپ کے احکام کی اطاعت اور آپ کے ہر فعل کی اتباع ٹھیک اسی طرح کی جائے جو آپ کے پیش نظر تھی، چنانچہ اگر آپ نے عبادت کے لیے خاص طور پر کسی جگہ کا قصد کیا ہے تو بلاشبہ اس کا قصد کرنا چاہیے، لیکن جہاں کہیں آپ نے محض اتفاقیہ نماز پڑھ لی اور اسے کوئی خصوصیت نہیں بخشی تو ہمارا اس جگہ کا قصد کرنا اور اسے خصوصیت دینا آپ کی پیروی قرار نہیں پاسکتا۔ ایک اہم فرق رہ گئی حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی حدیث، جس کی بنا پر امام احمد رحمہ اللہ نے اسے اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے کہ اسے عید نہ بنالیا جائے، یعنی بار بار وہاں آمدورفت نہ رکھی جائے اور مقرر اوقات میں جماؤ نہ کیا جائے، تو اس حدیث سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ مسجد بنانا چاہتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے چاہا کہ ایسی جگہ بنائیں جہاں نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ دیں تاکہ خود آپ ہی اس مسجد کا نقش قائم کرنے والے اور آغاز کرنے
Flag Counter