Maktaba Wahhabi

250 - 259
اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘[1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی مناجات میں کہا کرتے تھے: ’’الٰہی! میرے تمام اعمال کو صالح بنادے اور انھیں صرف اپنے لیے خالص کردے اور ان کا کوئی حصہ بھی کسی دوسرے کے لیے نہ ہونے دے۔‘‘ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ ﴿ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾[2]کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں: ’’سب سے زیادہ خالص، اور سب سے زیادہ صحیح عمل‘‘ شاگردوں نے پوچھا: ابوعلی! اس سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اگر عمل خالص ہے تو صحیح بھی ہو اور اگر صحیح نہیں تو قبول نہ ہوگا، اسی طرح اگر صحیح ہے مگر خالص نہیں تو بھی قبول نہ ہوگا۔ اسے بیک وقت خالص اور صحیح ہونا چاہیے۔ خالص کے معنی ہیں کہ خاص اللہ کے لیے ہو اور صحیح یہ ہے کہ سنت کے مطابق ہو۔ کلمۂ شہادت کی تحقیق اصل الا صول دو ہیں یعنی کلمۂ شہادت’’أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ‘‘ یعنی توحید ورسالت کی گواہی۔ کیونکہ جب یہ شہادت دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تو اس کا لازمی مطلب یہ بھی ہوگا کہ الوہیت صرف اسی کے لیے خاص ہے۔ لہٰذا جائز نہیں کہ دل کسی اور طرف لگاؤ رکھے بلکہ تمام تر محبتیں، الفت، امید وبیم، تعظیم وتکریم اور رغبت ورہبت اسی ذات برتر وحدہ لاشریک لہ کے لیے خالص رکھی جائے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّٰهِ ﴾
Flag Counter