Maktaba Wahhabi

157 - 259
ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص زہر کھالے اور زہر سے اس میں کوئی بیماری پیدا ہوجائے، تو ظاہر ہے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس بیماری میں مبتلا کیا ہے۔ کبھی فی نفسہ حرام دعا، غیر اللہ کے لیے ہوتی ہے مثلاً عیسائیوں کی طرح دعا کی جائے، جو کہتے ہیں: اے اللہ تعالیٰ کی ماں! اللہ سے ہماری شفاعت کر۔ کبھی دعا تو اللہ سے ہوتی ہے مگر درمیان میں ایسا وسیلہ پکڑ لیا جاتا ہے جو اللہ کو ناپسند ہوتا ہے۔ جیسے مشرکین اپنے بتوں کو وسیلہ بناکر اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ کبھی دعا ایسے الفاظ میں ہوتی ہے جو دعا کے لیے مناسب نہیں ہوتے۔ غرض اس قسم کی دعاؤں سے اگرچہ آدمی کا کام کبھی نکل جاتا ہے، مگر وہ دعائیں حرام ہی ہیں کیونکہ ان کی برائی، بھلائی سے زیادہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ مذکور ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دعائیں ان لوگوں کے حق میں فتنہ بن جاتی ہیں جنھیں اللہ نے اپنی جانب سے ہدایت نہیں بخشی اور جن کے دلوں پر اپنے نور کا جلوہ نہیں ڈالا کہ وہ امور تکوینی اور امور تشریعی کے درمیان فرق سمجھ لیتے۔ تقدیر وتشریع تقدیر وتشریع میں فرق ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ معاملات تین قسم کے ہوتے ہیں: (1)۔ ایسے امور جنھیں اللہ تعالیٰ نے مقدر کردیا ہے لیکن وہ انھیں پسند نہیں کرتا۔ لہٰذا وہ تمام اسباب جو ان امور کا باعث ہوتے ہیں، حرام ہیں اور اللہ تعالیٰ کے غیظ وغضب کے موجب ہوتے ہیں۔ (2)۔ ایسے امور جو اللہ نے مشروع کیے ہیں اور وہ انھیں اپنے بندے سے پسند کرتا ہے لیکن ان کے حصول میں اللہ تعالیٰ نے اس کی اعانت نہیں فرمائی، یہ امور ہر حال میں محمود ومستحسن
Flag Counter