Maktaba Wahhabi

178 - 259
کے طریقے تک نہ پہنچ جائے اور یہ اس لیے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تھا کہ ’’میری قبر کو عید نہ بنانا‘‘[1] اور فرمایا: ’’مجھے اس طرح نہ سراہنا جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو سراہا ہے۔ میں تو اللہ کا محض ایک بندہ ہوں، لہٰذا صرف یہ کہا کرو کہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘[2] قبر نبوی پر حاضری اس بارے میں یہاں تک احتیاط مدنظر تھی کہ بعض اکابر کو قبر نبوی پر سلام کرنے میں بھی شبہ پیدا ہوگیا، یہاں تک کہ انھیں بتایا گیا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سلام کیا کرتے تھے، اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ اور دوسرے علمائے مدینہ نے وہاں کے باشندوں کے لیے یہ بات مکروہ قرار دی ہے کہ جب بھی مسجد میں آئیں تو خاص طور سے قبر پر بھی جاکر نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صاحبین رضی اللہ عنہما کو سلام کریں۔ وہاں اس کی اجازت صرف اس صورت میں دی ہے کہ اگر لوگ کہیں سفر پر جارہے ہوں یا سفر سے واپس آئے ہوں تو سلام کرسکتے ہیں۔ بعض علماء نے یہ ناپسند کیا کہ آدمی جب بھی مسجد نبوی میں نماز ،تلاوت قرآن پاک یا دعا وغیرہ کے لیے داخل ہو تووہ آپ کو سلام بھی کرے۔ البتہ خاص طور پر درود وسلام کے لیے ہمیشہ قبر پر جانے کی میرے علم کے مطابق کسی نے اجازت نہیں دی کیونکہ یہ بھی قبر کو ایک طرح عید بنالینا ہے۔ ہمارے لیے مشروع چیز صرف اس قدر ہے کہ جب مسجد نبوی میں داخل ہوں تو
Flag Counter