Maktaba Wahhabi

249 - 259
ہو بھی نیکوکار، ساتھ ہی یکسوئی والے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے دین کی پیروی کررہا ہو اور ابراہیم ( علیہ السلام ) کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنالیا ہے۔‘‘[1] اور فرمایا: ﴿ وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١١١﴾ بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾ ’’اور انھوں نے کہا کہ جنت میں یہود ونصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا، یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں۔ ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل پیش کرو۔ سنو! جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے بشرطیکہ وہ نیکو کار ہو، تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ ان پر کوئی خوف ہوگا نہ غم۔‘‘ [2] اخلاص اورعمل صالح کیا ہے؟ ﴿أَسْلَمَ وَجْھَہُ لِلّٰہِ﴾ کی تفسیر یہ بتائی گئی ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے قصدِ عبادت کو خالص کرے اور ساتھ ساتھ اس عمل صالح کواختیار کرے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی دونوں چیزیں دین کی حقیقی بنیادیں ہیں۔ یعنی اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے اور وہی عبادت کی جائے جس کا اس نے حکم دیا ہے خود اپنے دل سے عبادتیں ایجاد نہ کی جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾ ’’جسے بھی اپنے پروردگار سے ملاقات کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ وہ اچھے عمل کرے اور
Flag Counter