Maktaba Wahhabi

213 - 259
ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، لیکن اب تم زیارت کرو۔‘‘[1] نیز صحیح بخاری میں ہے کہ فرمایا:’’ میں نے اپنے پروردگار سے اجازت چاہی کہ اپنی ماں کے لیے مغفرت کی دعا کروں، تو اس نے مجھے اجازت نہ دی اور میں نے ان کی قبر کی زیارت چاہی تو دے دی، لہٰذا قبروں کی زیارت کرو کیونکہ وہ تمھیں آخرت یاد دلائیں گی۔‘‘[2] یہ زیارت آخرت کی یاد تازہ کرنے کے لیے ہے، لہٰذا اس مقصد کے لیے کسی کافر کی قبر کی زیارت بھی جائز ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصد کیا تھا؟ قبروں کے پاس نماز پڑھنا انھیں مساجد قرار دینے کا معاملہ اوپر مذکور ہوچکا، نیز یہ بھی واضح ہوگیا کہ سلف صالحین میں سے کوئی بھی اس طرح کی بات نہیں کرتا تھا۔ ہاں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بابت منقول ہوا ہے کہ وہ تلاش کے ساتھ ان مقامات میں نماز پڑھتے تھے جہاں آپ نے نماز پڑھی تھی، حتیٰ کہ ایک جگہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تھا اور ایک درخت کی جڑ میں پانی گرایا تھا توحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی یہی کیا، لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ فعل اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انھوں نے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حالت میں پیروی کرنی چاہی۔ مگر یہ نہیں کیا کہ ان مقامات کو متبرک سمجھ کر وہاں نماز پڑھی ہو یا دعا کی ہو۔
Flag Counter