Maktaba Wahhabi

132 - 259
حجت ہے نہ ہی مسلمانوں کے لیے نمونہ۔ سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم کا عمل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی قبریں بہت سے مقامات پر موجود تھیں اور وہاں تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے بعد ائمہ رحمۃ اللہ علیہم بھی موجود تھے، لیکن انھوں نے کبھی کسی صحابی کی قبر کے پاس جاکر دعا یا فریاد نہ کی، حالانکہ یہ چیز اگر جائز ہوتی تو وہ ضرورایسا کرتے اور ہمیں اس کی خبر بھی پہنچتی۔ جس کسی کو کتب آثار اور تاریخ سلف میں غور کرنے کاموقع ملا ہے وہ پورے یقین سے جانتا ہے کہ وہ لوگ قبروں کے پاس دعا واستغاثہ نہیں کرتے تھے بلکہ اگر کسی جاہل کو ایسا کرتے ہوئے دیکھتے تو سختی سے منع کرتے تھے۔ جیسا کہ ہم پیچھے کچھ بیان کرچکے ہیں۔ اس بارے میں دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں، ان مقامات پردعا کرنادوسرے مقامات پر دعا کرنے کی نسبت افضل ہو گا یا نہ ہوگا۔ اگر افضل ہے تو ممکن ہی نہیں کہ یہ بات صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین وتبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم سب سے مخفی رہ جاتی۔ خیر القرون تو اس فضل عظیم سے بے خبر رہتے اور بعد کے لوگوں کو اس کا علم ہوجاتا، لہٰذا یہ بات قابل قبول نہیں۔ اگر کہا جائے کہ سلف اسے جانتے تھے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے اس پر کبھی عمل کیوں نہیں کیا؟ پھر دعا کا معاملہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، جب مصیبت پڑتی ہے تو آدمی بڑی بے قراری سے دعا کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور ہر طریقے سے مصیبت دور کرنے کی فکر کرتا ہے۔ سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم پر بڑی بڑی مصیبتیں نازل ہوئیں، مگر انھوں نے کبھی قبروں کے پاس دعا نہیں کی۔ اگر فرض کیا جائے کہ قبروں کے پاس دعا کرنے میں صرف تھوڑی سی کراہت ہے تو بھی مصیبت کے وقت آدمی اتنی خفیف کراہت کی پرواہ نہیں کرتا۔ اگر اس طرح کی دعا بالکل ناجائز نہ ہوتی،بلکہ صرف مکروہ ہوتی توسلف صالحین ضرور کبھی نہ کبھی اس پر مائل ہو جاتے۔ مگر ہمیں یقین سے
Flag Counter