ہوگیا ‘‘ اوریہ کہ تصور شیخ کی حیثیت ایک ’’بت ‘‘ کی ہے۔ میاں جی کے اس طویل بے بنیاد استدلال پر زیادہ تعجب کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ راوی نے ان کے بارے میں شروع میں یہ وضاحت کردی تھی کہ ’’پڑھے لکھے چنداں نہ تھے ‘‘ اورحقیقت یہ ہے کہ اس تقریر میں جس طرح کی باتیں کہی گئی ہیں معمولی پڑھے لکھے اورشرعی نصوص سے ادنیٰ تعلق رکھنے والے کسی فرد سے اس طرح کی باتوں کا صدور ممکن نہیں،مثلاً: موصوف کا یہ فرمانا کہ اشغال متعارفہ بین الصوفیہ بدعت توضرور ہیں مگر بدعت فی الدین نہیں بدعت للدین ہیں۔ بدعت کی یہ انوکھی تقسیم اوردین کے واسطے بدعت کی ایجاد کو مشروع اورمستحسن قرار دینا نہ جانے کس عقل ومنطق کی روسے صحیح ہے،اہل بدعت تمام بدعات کو بزعم خویش دین کی بھلائی کے لیے ہی وجود بخشتے ہیں،لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں فرمادیا ہے: ’’کلُّ بـد عـۃٍ ضَــلا لۃ‘‘[1] ہربدعت گمراہی ہے۔ اور’’مَنْ اَحْدَثَ فِيْ اَمْرِنَا ھٰذا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَرَدّٔ ‘‘[2] جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز داخل کردی جو اس میں نہ تھی تو وہ مردود ہوگی۔ اسی لیے علماء نے بدعت حسنہ اوربدعت سیئہ کی تفریق کو ناروا قراردیا ہے اورجملہ بدعات کی قباحت وشناعت پر ان کا اتفاق ہے۔ میاں جی کا یہ استدلال توایسا ہی ہے جیسا کہ حدیث گھڑنے والوں کا استدلال تھا۔ان کو جب حدیث بنانے سے منع کیا گیا اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی گئی کہ: |