Maktaba Wahhabi

131 - 259
اسی لیے تابعین کے زمانے میں جب آپ کا حجرہ از سر نو تعمیر کیا گیا تو اس کی چھت میں ایک روشن دان بنادیا گیا تھا تاکہ اندر سے آسمان دکھائی دیتا رہے، پھراس میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ 650ہجری کے بعد مسجد او رمنبر میں آگ لگ گئی۔ اس کے کئی سال بعد حجرے کی چھت پر قبہ تعمیر کیا گیا لیکن لوگوں نے اسے ناپسند کیا۔ دانیال نبی علیہ السلام کی لاش محمد بن اسحاق نے مغازی میں ابوالعالیہ سے روایت کیا ہے کہ جب ہم نے تُستر(ایران) فتح کیا تو ہر مزان (گورنر)کے توشہ خانے میں ایک چارپائی نظر آئی۔ اس پر ایک میت پڑی ہوئی تھی اور اس کے سرہانے ایک کتاب رکھی تھی۔ ہم وہ کتاب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لائے۔ انھوں نے کعب رحمہ اللہ کو عربی میں اس کا ترجمہ کرنے کا حکم دیاحضرت کعب کہتے ہیں: میں سب سے پہلا عرب ہوں جس نے قرآن کی طرح یہ کتا ب پڑھی۔ اس میں عربوں کے بہت سے حالات اور آنے والے واقعات کی پیشین گوئیاں لکھی تھیں۔ ہم نے اس مردے کے لیے دن میں مختلف مقامات پر تیرہ قبریں کھودیں اور رات کو اسے چپکے سے ایک قبر میں دفن کر کے تمام قبریں برابر کردیں تاکہ لوگوں کو اس کی اصلی قبر کا پتہ نہ چل سکے۔ ایرانی اس میت سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ جب کبھی قحط پڑتا تو اسے لے کر نکلتے تھے اور بارش کے لیے دعا کرتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لاش دانیال نبی علیہ السلام کی تھی۔ اس قصے سے ثابت ہوتا ہے کہ مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم نے اس میت کی قبر اس لیے گم کردی کہ لوگ اس کی وجہ سے فتنے میں نہ پڑجائیں۔ یعنی ان کے نزدیک قبروں کی اس طرح تعظیم وتکریم کرنا جائز نہ تھا۔ لوگ ہمیشہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر کی مثال پیش کردیتے ہیں جسے اہل قسطنطنیہ بہت مقدس سمجھے تھے۔ مگر قسطنطنیہ والوں کا یہ فعل شریعت میں
Flag Counter