Maktaba Wahhabi

145 - 259
اس کی بھلائی ہوتی تھی اور اس بات سے منع کرتے تھے جس میں اس کی برائی ہوتی تھی۔ وہ لوگوں کے دماغ اور اسباب، کائنات کی بحث وتفکر میں مشغول نہیں کرتے تھے۔ جبکہ فلسفیوں کا دستور اس کے برعکس ہے اور درحقیقت یہ بحث بہت طولانی، تھکا ڈالنے والی اور فائدے سے خالی ہے بلکہ الٹا مضرت کا موجب بھی ہوسکتی ہے۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی ماہر طبیب کسی مریض کا معائنہ کرتا ہے، اس کی بیمار ی تشخیص کرلیتا ہے اور اسے بتا دیتا ہے کہ یہ یہ دوا پینا اور فلاں فلاں چیز سے پرہیز کرنا۔ بیمار اس کی ہدایت پر عمل کرتا ہے اور تندرست ہوجاتا ہے۔ برخلاف اس کے نام نہاد فلسفیوں کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی نیم حکیم، جومریض کو دیکھتا ہے اور اپنی قابلیت جتانے کے لیے مرض کی حقیقت اور اس کے اسباب کی تشریح شروع کردیتا ہے، بہت سی فضول باتیں کر جاتا ہے، لیکن جب بیماراکتا کر پوچھتا ہے کہ حکیم صاحب مجھے وہ دوا بتائیے جس سے شفا حاصل ہو تووہ بغلیں جھانکنے لگتا ہے اور دوا نہیں بتاسکتا۔ حرام دعائیں کیوں قبول ہوتی ہیں؟ بعض اسباب ایسے بھی ہیں کہ ان پر گفتگو اور بحث ضعیف العقل اور قلیل الایمان لوگوں کو فتنے میں ڈال سکتی ہے۔ عقل مند کے لیے اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ غیر مشروع اسباب ووسائل ہر گز مؤثر نہیں ہوتے اور اگر کبھی ان کا اثر ظاہر ہوتا ہے تو اس کا نقصان، نفع سے زیادہ ہوتا ہے۔ حرام دعاؤں پر بھروسا کرنے والوں کی بعض دعائیں کبھی صرف اس لیے قبول ہوجاتی ہیں کہ وہ سخت پریشان ہوتے ہیں اور پریشانی کی وجہ سے نہایت سچے دل سے دعا کرتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی دعا مشرک بھی اپنے بت کے سامنے کرے تو شرک ہونے کے باوجود قبول ہوجائے کیونکہ اس حالت میں اللہ کی طرف سچی توجہ ہوتی ہے۔ اسی طرح کبھی قبر کے توسل سے سچی توجہ کی حالت میں کی جانے والی دعا قبول ہوسکتی ہے، مگر اس شر ک
Flag Counter